مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد کو معمول کے واقعات میں سبق اور درس کاعنصر ڈھونڈنکالنے میں ملکہ حاصل تھا،وہ معاشرتی رویوں میں تبدیلی یاسہولیات کے آنے سے زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ میں اپنے یوٹیلیٹی بلز پر دباؤ ڈالتا ہوں اور ان پر کڑھتا ہوں۔ میرا اس میں کوئی قصور نہیں، یوٹیلیٹی بل بھیجنے والوں کا بھی کوئی قصور نہیں۔ قصور میری خواہشات کا ہے، میری خواہشات کا دائرہ اتنی دور پھیل گیا ہے اور وہ میرے اختیار میں بالکل نہیں رہا۔ میں کتنی بھی کوشش کیوں نہ کرلوں، میں اس دائرے کے اندر نہیں آسکتا۔ باربار مجھے یہ کہاجارہاہے کہ یہ بھی تمہارے استعمال کی چیز ہے، وہ بھی تمہارے استعمال کی چیز ہے اور جب تک تم اسے استعمال میں نہیں لاؤگے، اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا۔1948ء میں ہم نے ایک
فریج خریدا، کیونکہ میری بیوی کہتی تھی کہ فریج ضرور لینا یہ دنیا کی سب سے قیمتی اور اعلیٰ درجے کی چیز ہے۔ ہمارے خاندان میں کسی کے پاس فریج نہیں تھا، وہ ہمارے گھر سالم تانگے کروا کر فریج دیکھنے آتے تھے میری بیوی انہیں دکھاتی تھی کہ دیکھو ڈھکنا کھلا ہے اور اس میں ساری چیزیں پڑی ہیں اور ان پر روشنی پڑرہی ہے، ساری چیخیں مارتی تھیں کہ آپا جی بتی جلتی رہے گی۔ تو وہ کہتی ”ہے! جب دروازہ بندہوگا تو بتی خودبخود بجھ جائے گی۔اس میں یہ کمال ہے۔“ تو وہ ساری بیچاریاں دست بستہ ہوکر ڈرکے پیچھے ہوکر کھڑی ہوجاتیں، میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ فریج توآگیا ہے اس کے ساتھ اس کی ساری نگیٹو چیزیں بھی آئیں گی۔ اس نے کہا، نہیں یہ بڑی مفید چیز ہے۔اگلے روز عید تھی جب میں نماز عید پڑھ کے صوفی غلام مصطفی تبسم کے گھر کے آگے سے گزرا تو گھروں میں صفائی کرنے والی دو بیبیاں جارہی تھیں، میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ ایک نے دوسری سے پوچھا کہ اس بی بی نے تجھے کتنا گوشت دیا ہے تو اس نے کہا، دفع دور! اس نے ٹھنڈی الماری خریدلی ہے، سارا بکرا کاٹ کے اندر رکھ دیا ہے، کچھ بھی نہیں دیا۔ اب آپ لوگ میرا بندوبست کرو کہ میں کیسے اپنے آپ کو بچاؤں۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ جدید طرز زندگی کے وہ اثرات ہیں جن کو ہم میں سے
اکثر نظر انداز کرتے ہیں اور ان پرکبھی غور نہیں کرتے۔ تاہم دیکھا جائے تو جدید طرز زندگی میں جن مشینوں اور آلات نے ہماری زندگی آسان اور پر سہولت کر دی ہے وہاں کچھ ایسی باتیں بھی ساتھ ہماری زندگی کاحصہ بن گئی ہیں جو پہلے نہ تھیں اور ان میں سب سے اہم انسانوں کے درمیان پیدا ہونے والا فاصلہ ہے۔کیونکہ ہر کوئی اپنی ضرورت خود پوری کرنے کے قابل ہوا ہے اس لئے نہ تو اسے پڑوسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت ہے اور نہ پڑوسی اس کے پاس کچھ مانگنے آتا ہے اس لئے تو بہت سے علاقوں میں کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کون کب سے رہائش پذیر ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انسان جب ایک دوسرے پر انحصار کرتا ہے تو وہ رابطہ بھی رکھتا ہے اور جب ایک دوسرے پر انحصار ختم ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں رابطے کمزور پڑ جاتے ہیں۔