کوئلہ: متبادل توانائی و سرمایہ

اطمینان بخش ہے کہ ملک کو درپیش معاشی بحران کے حل کیلئے مقامی وسائل و ذرائع سے استفادے پر توجہ مرکوز ہے اور درحقیقت یہی معاشی ترقی اور بہتر مستقبل کی سوچ کا آئینہ دار اقدام ہے‘ تقریباً ایک دہائی سے یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ تھر کا کوئلہ معیار کے لحاظ سے ناقص ہے کیونکہ اِس میں ’سلفر‘ کی مقدار زیادہ ہے اور یہ کہ اِس کوئلے میں نمی بھی پائی جاتی ہے جبکہ یہ دونوں مسئلے قابل حل ہیں تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر میں سے جن 13 حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے‘ ان میں سے دو سے کوئلہ بذریعہ کان کنی حاصل کیا گیا ہے جس سے قریب ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور چونکہ یہ کوئلہ مقامی ذریعے سے حاصل ہوتا ہے اِس لئے کم لاگت میں بجلی تیار کر کے ’قومی ترسیلی نظام (نیشنل گرڈ)‘ کو فراہم کی جا رہی ہے۔ کوئلے سے بننے والی بجلی کی یہ مقدار رواں سال کے آخر تک چھبیس سو میگاواٹ تک بڑھا دی جائے گی۔ وقت کے ساتھ زیرزمین ذخیرے سے زیادہ کوئلہ حاصل کرنے کے لئے ملک بھر سے اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین کی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ مزید کوئلے کی کان کنی کی جائے۔ اِس بات پر بھی غور ہو رہا ہے کہ پاکستان کی مقامی ضروریات کے علاؤہ تھر کوئلے کو برآمد کیا جائے جس سے ملک کو سالانہ دو سے تین ارب ڈالر کی آمدنی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں کوئلے سے بجلی بنانے کے علاؤہ‘ اِس کا دوسرا بڑا استعمال سیمنٹ کی صنعت میں ہو رہا ہے اور مقامی کوئلہ سیمنٹ کی بڑھتی ہوئی لاگت کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری انڈونیشیا سے ’موئسچرائزڈ (نمی ملا) کوئلہ درآمد کرتی ہے جبکہ ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے تھر ذخائر سے حاصل ہونے والا کوئلہ کان کنی کے دوران ہی خشک کیا جا سکتا ہے اور خشک کوئلے پر نقل و حمل کی لاگت بھی کم ہوجاتی ہے جبکہ اِس عمل میں حاصل ہونے والی راکھ‘ کھاد بنانے والی کمپنیوں کو فراہم کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے اپنے وسائل کو ترقی دینے کی ضرورت ہے تاکہ سوئی گیس پر انحصار کم ہو سکے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس طرح سوئی کے لوگ ایک عرصے تک گیس سے محروم رہے اور آج بھی جبکہ سوئی سے حاصل ہونے والی گیس پورا ملک استعمال کر رہا ہے لیکن اِس سے سوئی (بلوچستان) میں خاطرخواہ تعمیر و ترقی نہیں ہوئی ہے اِس لئے تھر میں سوئی سے کئے گئے امتیازی سلوک کی کہانی نہیں دہرائی جانی چاہئے۔ کوئلے کی نقل و حمل ایک ایسا کاروبار ہے جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘ ٹرکوں کے ذریعے کوئلے کی ترسیل میں ڈیزل خرچ ہوتا ہے جو ایک درآمدی اور مہنگی جنس ہے‘ اِس کے متبادل نقل و حمل کیلئے اگر ریلوے کا نظام بچھایا جائے اور ریلوے کے موجودہ نیٹ ورک کی توسیع و بہتری میں سرمایہ کاری کی جائے تو اِس سے نقل و حمل کے اَخراجات میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے لیکن ترقیاتی امور کے حوالے سے قومی فیصلہ سازی اور عمل درآمد کے درمیان فاصلہ ختم نہیں ہو رہا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے قرض کی اگلی قسط فراہم کرنے سے قبل ’کفایت شعاری‘ اختیار کرنے کی جو شرط عائد کی گئی اُسے پورا کرنے کیلئے ریلوے کا نظام مددگار ثابت ہو سکتا ہے‘ ریلویز آئینی طور پر وفاقی حکومت کا ادارہ ہے جس سے متعلق فیصلہ سازی بھی وفاقی حکومت ہی کو کرنا ہے اگرچہ اِس کے بارے میں ترجیحات صوبائی سطح پر وضع ہوں۔ کوئلے کے زیادہ استعمال سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہوں گے جس کیلئے پاکستان کو عالمی سطح پر مشکل صورتحال سے واسطہ پڑ سکتا ہے کیونکہ پاکستان ’سی او پی ٹوئنٹی سیون‘ اجلاس میں اِس بات کا وعدہ کئے بیٹھا ہے کہ ماحول کو نقصان پہنچانے والے ذرائع و اسباب کا استعمال نہیں کرے گا لیکن دنیا پاکستان کو ماحول دوست ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں کر رہی تو اِس صورت میں سستے کوئلے پر انحصار کرنے کے علاؤہ کوئی دوسرا چارہ نہیں رہا۔ ماحولیاتی آلودگی میں تخفیف کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال صرف اُسی صورت ممکن ہے جبکہ پاکستان کی مدد کی جائے‘ ایسی ٹیکنالوجی بھی موجود ہے جو کوئلہ جلانے سے پیدا ہونے والی خطرناک گیسیوں کے فضا میں اخراج کو کم کر سکتی ہے اور اِس ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری درحقیقت مستقبل میں سرمایہ کاری ہے جس کے موجود متبادل سے استفادہ کیا جانا چاہئیں۔