کاش مجھے نئی زندگی مل جائے

 نہیں صاحب جی ایسا ممکن نہیں ہے۔اب میں اس عمر میں کھلاڑیوں کو چوکے چھکے لگاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ مجھے نئی زندگی مل جائے تو میں ان سے زیادہ چابکدست سبک اور چست ہو جاؤں  مگر جو کھلاڑی ریٹائر ہیں وہ اس کھیل کے فن کو جان کر بھی اپنی جسمانی حالت کے ابتر ہونے کی وجہ سے اس طرح چاک و چوبند نہیں بلکہ دو چار قدم لیں تو ان کی سانس پھول جاتی ہے‘بچوں کو نالیوں پر سے کود کر آگے جاتا ہوادیکھتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کاش نئی زندگی مل جائے تو میں بھی ایسا کر وں مگر وہی بات کہ جو ملی ہوئی ہے اس کا غم کریں کہیں یہ کیش بھی کوئی جیبوں میں نکال کر لے نہ جائے۔جو موجود ہے اسی کو غنیمت جانئے۔ اس زندگانی کی خیر منائیے‘نئی زندگی تو ویسے بھی نہیں ملنے والی۔کہیں نئی کی آس میں حاضر وقت کی حیات کو برباد نہ کردیں ”کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا۔ وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا“۔وہ زندگی کی قرض 
سانسیں جو دامن میں کرنوں کی صورت میں امید کی طرح چن لی ہیں انہیں کو نبھا لیں تو زبردست کام ہوگا۔ بڑے سائنسدانوں کو بھی اس میں کامیابی نہ ملی کہ ان کو نئی زندگی سے نواز دیا جاتا ”اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دے۔ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے“۔ اس لئے جو سانسیں سینے میں آتی جاتی ہیں وہی کافی و شافی ہیں  یہ خواہش نہ کریں کہ کسی اور کی سانسوں کو آپ کے سینے میں منتقل کر دیا جائے۔سینے کی دکھن نہ ہو اور سانسیں روانی سے آتی جاتی ہوں تو اس سے بڑھ کر کیا انعام ہوگا۔جس وقت ہم اپنی جوانی کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں بھول کر بھی یاد نہیں آتا کہ ہمارے جسم و جاں میں کمزوری ایک دن گھر بنا لے گی اور اس گھر سے نکالے نہیں نکلے گی۔ سردی ہوگی تو یہی گرم اور توانا لہو رگوں میں سے تنگ ہو کر گزرے گا۔پھر ہمیں گوڈوں اور گٹوں کی پڑ جائے گی۔ہم دوسروں کو چلتا پھرتا بلکہ دوڑتا بھاگتا دیکھیں گے ہمیں حسرت ہوگی کہ کاش مجھے نئی زندگی ملے تو میں بھی اسی طرح بھاگم دوڑی سے کام لوں‘اصل میں جب جسم و جاں کی نقدی پاس ہوتی ہے اس وقت ہمیں اس کے کھوجانے کا ڈر ہی نہیں ہوتا مگر ہمیں معلوم نہیں ہوپاتا اور کسی کو بھی معلوم نہیں ہوپاتا کہ ایک دن ہم اس نقدی سے محروم ہو جائیں گے۔ کوئی آئے گا اور جیسے آنکھوں میں سے سرمہ نکال کر لے جائے ہمیں پتا نہ چل سکے اس طرح ہم سے یہ خزانہ لوٹ کر لے جائے گا۔اس لئے جو دولت مہیا ہے اس کو غنیمت جانیں کہ اچانک یہ سانسوں کی مالا کہیں سے 
ٹوٹ نہ جائے موتی موتی بکھر نہ جائے۔کوئی یہاں گرے کوئی وہاں گرے۔کسی اور کے نصیب کو دیکھ کر ہم رشک کرتے ہیں کہ کاش ہمارا بھی ایسا ہی مقدر ہوتا مگر کیا پتا ہم جس آدمی کو سمجھتے ہیں کہ یہ مجھ سے عمر میں کم ہے اور زیادہ جیئے گا۔فرض کریں آپ اس سے اپنا بڑھایا بدل لیں مگر اُس کی قسمت میں جواں مرگ ہونا لکھا ہو تو پھر بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا۔کوئی نوجوان بھاری بوجھ اٹھا کر ورزش کر رہا ہو خواہ کوئی خاتون ہو۔اس وقت ہمیں دکھ ہوگا۔ اس بات پر کہ کاش ہم چالیس سال پیچھے چلے جائیں اور اپنی زندگی کی راہیں نئے سرے سے استوارکریں۔جو غلطیاں ہم سے ہوئیں ان کو نئی زندگی ملنے پر نہیں دہرائیں گے مگر یہ سب باتیں دیوانگی اور نفسیاتی مریض اور کسی کمپلیکس کا شکار ہوجانے کی علامات میں سے ہیں۔ جس ہستی نے بھاگ لکھے ہیں اس نے جو لکھ دیا سو لکھ دیا۔ پھر جو لکھا وہی درست ہے۔کیا پتا جو ہم چاہتے ہیں وہ غلط ہو۔سو اس لئے جو مل گیا اسی کو یاد رکھنا چاہئے۔