(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
چند روز پیشتر ایک تعلیم یافتہ اور با شعور دوست اپنے ہاتھ میں ایک پڑیا سی بنی ہوئی مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ دیکھیں میں ڈینگی مچھر لے آیا ہوں۔تفصیل انہوں نے یہ بتائی کہ مجھے گردن پر اس مچھر نے کاٹا اور مجھے ایسے لگا جیسے سوئی چبوئی ہے‘میں نے جھٹ سے اپنے ہاتھ سے اس مچھر کو مارا اور اب لپیٹ کر آپکے پاس لے آیا ہوں۔مجھے انہوں نے بتایا کہ میں نے اسے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے مارا ہے اور مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے ڈینگی ہو گیا ہے‘ان سے جو تفصیلاً بات ہوئی اسے سوال جواب کی شکل میں اسلئے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ شاید یہ عوامی سطح پر معلومات میں اضافے کا باعث بن سکے‘سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ڈینگی مچھر نہیں ہے بلکہ وائرس ہے‘بالکل اسی طرح کا وائرس جس طرح کالا یرقان یا ایڈز کا وائرس ہوتا ہے۔ ان مچھروں میں ایک کا نام AEDES EGYPTI ہے‘یہی مچھر ملیریا بھی پھیلاتا ہے اور ملیریا ڈینگی بخار سے زیادہ خطرناک مرض ہے لیکن شاید ہم اب ملیریا سے نہیں ڈرتے۔ضروری نہیں کہ اس مچھر کے کاٹنے پر ڈینگی بخار یقینی ہو گا بلکہ اگر اس مچھر نے کسی ایسے مریض کو کاٹا ہے جس کے خون میں ڈینگی کا یہ وائرس موجود تھا تو اب یہ امکان کی بات ہے کہ نئے صحت مند شخص کو کاٹنے پر اسے ڈینگی بخار ہو جائے۔یہ ایسے مچھر کے کاٹنے کے بعد جسکے لعاب میں ڈینگی وائرس موجود ہے وہ صحت مند شخص کو یہ وائرس دے سکتا ہے اگر یہ وائرس بدن میں مخصوص طریقے سے پھیل جائے تو ڈینگی بخار ہو سکتا ہے اگر آپ توجہ فرمائیں تو آپ کے بدن کے اندر ایک ایک لمحے میں ہزاروں قسم کے جراثیم اور وائرس داخل ہو رہے ہیں مگر بدن کا مدافعتی نظام کسی قسم کا مرض پیدا نہیں کر رہا اسی طرح اگر آپکا مدافعتی نظام صحیح کام کر رہا ہے تو امکان یہی ہے کہ وہ اس وائرس کو ختم کر دے گا۔اگر یہ مدافعتی نظام اس جگہ بھی کام نہ آیا تو پھر؟جواب: اب مریض کو جو بخار ہو گا اسے ہم ڈینگی بخار کہیں گے لیکن اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مریض اب جان بلب اور ہسپتال میں داخلے کا اُمیدوار سمجھنا چاہئے‘یہ مریض اب بھی مکمل طور پر شفایاب ہو سکتا ہے۔سوال: اب یہ کیسے صحت یا ب ہو گا؟جواب: یقین مانئے‘جتنی آسان دوائی اس مرض کی ہے شاید ہی کسی دوسرے مرض کی ہو۔اس میں صرف پیرا سیٹامول کی گولیاں یا شربت اور اس کیساتھ مائعات کا استعمال کرایا جاتا ہے اور مریض ایک سے دو ہفتوں میں بالکل صحت یاب ہو جاتا ہے‘ اس کی احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟ یہ اصل سوال ہے جس کیلئے ہمیں عوامی شعور کو زیادہ کرنا اور میڈیا کے ذریعے ہی اس آگہی کو عام کرنا ہے جب آپ اپنے گلی محلے میں گندگی کے خوگر ہو جاتے ہیں‘اس جواب کیلئے آپ کو کسی جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں‘ اپنے گھر کو صاف کرتے ہوئے اپنی گلی اور باہر کی نالیوں کی تھوڑی سی فکر آپ کو نہ صرف اس غم سے بلکہ کئی اور بیماریوں سے بھی نجات دے دے گی‘ ہمارے صوبے کے کسی بھی چھوٹے بڑے ہسپتال کا نام لے لیجئے۔ بھلے ہسپتال نہ سہی‘کسی سرکاری ڈسپنسری کو سامنے رکھئے اس بخار کا 99 فیصد علاج ممکن ہے اور 99 فیصد کا مطلب ان ہر 100 مریضوں سے متعلق ہے جنہیں یہ بخار ہوسکتا ہے۔