عوام کو ریلیف چاہئے

ایسے حالات میں کہ عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف حکومت پر عوام کو دی گئی مختلف قسم کی سبسڈیز کو ختم کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہا ہے عوام کو ریلیف ملنے کے امکانات کم ہونے لگے ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ حصہ بقدر جثہ کے مصداق مالدار اور صاحب ثروت افراد پر حسب ضرورت اس طرح ٹیکسز لگائے جائیں کہ ان کے بوجھ کو عام آدمی پرمنتقل کرنے کی گنجائش نہ رہے۔بد قسمتی تو یہ ہے کہ ایک تو بین الاقوامی حالات اور عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے باعث مہنگائی بڑھ رہی ہے تو ساتھ ہی خود ساختہ مہنگائی بھی موجود ہے جس کا ان بیرونی عوامل سے کوئی تعلق نہیں۔ ملک کے اکثر علاقوں میں رمضان شریف   کی آمد سے قبل ہی خود ساختہ مہنگائی میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ یار لوگوں نے حسب معمول اور حسب روایت ابھی سے ہی اشیا ئے صرف کی قیمتوں  کو بڑھا دیاہے۔  ہر سال ہمارے ہاں یہی ہوتا آیا ہے۔ کہ  اشیائے خود نوش بیچنے والے سارے سال کی کسر رمضان شریف کے دوران یا اس سے ایک آدھ ماہ قبل قیمتوں میں اضافہ کر کے نکال  لیتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ جب گراں فروشوں کے خلاف ضلعی انتظامیہ کافی متحرک ہوا کرتی تھی پر ایک عرصے سے اس نے بھی عوام کو بلیک مارکیٹرز کے رحم و کرم پر چھوڑ  رکھا ہے ، خود ساختہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ مجسٹریسی نظام کو فعال بنایا جائے تاکہ سرکاری نرخنامے کی پابندی نہ کرنے والوں کو موقع پر سزا دی جاسکے۔ا ب بات ہوجائے عالمی منظر نامے کی جہاں یوکرین جنگ میں روس کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ اور نیٹو نے روس پر مزید پابندیاں لگائی ہیں تاہم اسکے باوجود روس کی معیشت اسی طرح مستحکم ہے جس طرح کہ جنگ سے قبل تھی۔ اس پر امریکی اور یورپی میڈیا کے تجزیہ کا رحیران ہیں کہ کس طرح روس  نے  دوران جنگ اپنی معیشت کو بدستور مستحکم رکھا ہے۔ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق اس کی بڑی وجہ امریکی پابندیاں ہی ہیں جس نے روس کو متبادل انتظامات پر مجبور کر دیا ہے اور اس نے دیگر ممالک سے اس طرح کے معاشی تعلقات استوار کرلئے ہیں کہ اس کی معیشت پر جنگ کے منفی اثرات مرتب ہوتے  نظر نہیں آرہے۔دوسری وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ روسی کمپنیوں کومشکل حالات میں کام چلانے کا تجربہ ہوا ہے اور اس لئے یہ کمپنیاں خسارے میں نہیں جارہی اور نہ ہی انہوں نے پیدوار میں کمی کی ہے بلکہ انہوں نے مارکیٹ تبدیل کر دئے ہیں۔ افریقہ سے لے کر چین اور ترکی سمیت بہت سے ایشیائی ممالک روس کے ساتھ ماضی کے مقابلے میں زیادہ تجارت کرنے لگے ہیں اور ایک طرح سے امریکی پابندیاں بے اثر ثابت ہورہی ہیں۔امریکہ اورا س کے اتحادی تو زیادہ تر الزام چین پرلگا رہے ہیں کہ وہ روس کی مدد کررہا ہے اور اس کی معیشت کو بھی سنبھالا دئیے ہوئے ہے۔ اور دیکھا جائے تو چین نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ چین اور روس ملکر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی چالوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔اس لئے تو امریکہ اور اس کی ایجنسیوں کی کوشش ہے کہ رو س اور چین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کریں تاکہ دونوں ممالک کوالگ الگ نشانہ بنائیں۔ تاہم اس وقت روس اور چین دونوں کو حالات کی نزاکت کا احساس ہے اور یورپ وامریکہ کی چالوں کا بھی۔ اس لئے تو وہ یک جان دو قابل بنے ہوئے ہیں اور اس میں نہ صرف ان دونوں ممالک کا بلکہ دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کا بھلا ہے۔