چوبیس فروری کو روس یوکرین لڑائی کو ایک سال ہوگیا اور جنگ ختم ہونے کے ابھی کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔یوکرین ابھی تک توقعات کے برعکس ایک سالہ جنگ میں روس کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ روس کے حملے کے ایک سال بعد، یوکرین نے نہ صرف کامیاب دفاع کیا ہے بلکہ جوابی حملے کرکے اپنے چند مقبوضہ علاقے بھی واپس لیے ہیں۔امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی یوکرین کو روس کے سامنے ڈٹے رہنے کی تلقین کررہے اور اس کی ہتھیاروں اور پیسوں سے مدد کررہے ہیں۔کئی مہینوں تک یوکرین کی جنگ جنوب مشرق میں 600 میل طویل محاذ پر آہستہ آہستہ جاری رہی۔ لیکن اب جس طرح کے حالات و واقعات سامنے آرہے ہیں ان کی روشنی میں بظاہر مستقبل قریب میں جنگ میں تیزی اور توسیع کا امکان ہے۔روس کے صدر پیوٹن طویل، شدید اور نہ ختم ہونے والی جنگ کیلئے آمادہ ہیں۔ ان کیلئے یہ جنگ ایک ڈراؤنا خواب بنا ہوا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ روس اب نئے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی تعیناتی، ہائپر سونک میزائلوں کی تیاری اور نئی جوہری آبدوزیں شامل کرکے اپنی جوہری قوتوں کو بڑھانے پر زیادہ توجہ دے گا۔روس نے مغرب پر الزام لگایا ہے کہ وہ روس کو توڑنے کے لئے یوکرین کو استعمال کر رہا ہے لیکن یہ ناکام ہوں گے۔ وہ یوکرین کے بڑھتے ہوئے مغربی ہتھیاروں کے ذخائر سے آگاہ ہے اور پہل کررہا ہے۔ یوکرین کے مطابق جنگ کی برسی پر اس نے محاذ پر روس کا ایک بڑا روسی حملہ پسپا کر دیا۔یوکرین بھی روسی عزائم سے آگاہ ہے اور اپنے ہزاروں فوجیوں کو تربیت دے اور مسلح کر رہا ہے اور بھاری ہتھیاروں اور گولہ بارود جمع کر رہا ہے۔ محاذ پر اس کی ترجیح یہ ہے کہ وہ روسی افواج کو تقسیم کرے تاکہ وہ جنوب میں روسی سپلائی لائن توڑ سکے اور کریمیا سے بھی اس کی سپلائی لائن منقطع کرسکے۔یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ صدر پیوٹن امریکہ اور یورپی ممالک کی پابندیوں، یوکرین کو مغربی عسکری امداد، نیٹو کی مشرقی جانب توسیع کے عزائم اور روس کے اردگرد اپنے مستقل عسکری اتحادی بنانے کی کوشش پر مشتعل ہوکر عن قریب دیگر محاذ کھول سکتے ہیں جن میں پولینڈ سرفہرست ہے۔جنگ شروع کرنے سے پہلے روس نے مشرقی یوکرین کے دو علاقوں، جہاں پر روس نواز جنگجو یوکرین سے لڑ رہے ہیں، کو آزاد ریاستیں قرار دیا تھا اور انتباہ کیا تھا کہ اگر یوکرین نے وہاں روسی النسل عوام پر حملے بند نہیں کیے تو حالات کی سنگینی کا وہی ذمہ دار ہوگا۔روس اور یوکرین کے درمیان ترکی، چین وغیرہ کی مدد سے مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں۔ روس کے مطالبات یہ ہیں کہ یوکرین ہتھیار ڈال دے، ڈونیٹسک اور ماکیوکا کے شہروں کے خلاف جنگی کاروائیاں روک دے، اپنی غیرجانبدار حیثیت ثابت کرنے کے لئے اپنے آئین میں ترمیم کرے، اپنی فوج کا حجم کم کردے، کریمیا کو روس کا حصہ مان لے اور ڈونیٹسک اور لوگانسک کو آزاد ریاستیں تسلیم کرلے تو وہ جنگ بند کردے گا۔ روس یہ بھی چاہتا ہے کہ یوکرین، جارجیا، فن لینڈ اور سویڈن کو نیٹو میں شامل نہ کیا جائے، نیٹو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ترک کردے، پولینڈ، ایسٹونیا، لیٹویا اور لتھوانیا سے اپنی افواج اور پولینڈ اور رومانیہ وغیرہ سے میزائل نظام ہٹادے اور 1991 سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلا جائے۔یوکرین کے بنیادی مطالبات جنگ بندی اور روسی فوجیوں کا انخلا ہیں۔ وہ مستقبل میں ایسی کسی مہم جوئی کے خلاف اپنے لئے چند یورپی اتحادیوں کی قانونی حفاظتی ضمانتیں بھی مانگ رہاہے۔ مگر سوال یہ ہے ان حفاظتی ضمانتوں کا ضامن کون ہوگا۔ کیا چین یہ کام کرسکتا ہے؟روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد مغرب نے ایک زبردست عالمی اتحاد تشکیل دیا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمعرات کو 141 ممالک نے روس سے غیر مشروط طور پر یوکرین سے اپنی فوج نکالنے اور جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ روس کے ساتھ صرف چار دیگر ممالک نے اس قرارداد کو مسترد کیا۔ تاہم بھارت اور چین سمیت دیگر 47 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ واضح رہے ان بہت سے غیر جانبدار ممالک نے روس کو اہم اقتصادی یا سفارتی مدد فراہم کی ہے۔جنگ کے ایک سال بعد اگرچہ مغرب کا روس مخالف اتحاد قائم و مضبوط ہے مگر وہ باقی دنیا کو روس کو الگ تھلگ کرنے پر قائل نہیں کر سکا۔ پورے افریقہ، لاطینی امریکہ، ایشیا اور مشرق وسطی میں، امریکہ اور یورپ کے ساتھ مضبوط سرکاری تعلقات رکھنے والی بہت سی حکومتیں جنگ کو عالمی خطرہ کے طور پر نہیں دیکھتیں۔ اکثر ممالک روس کے حملے کو، بنیادی طور پر، ایک یورپی اور امریکی مسئلہ کے طور پر دیکھتے ہیں اور حملے کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی اور جغرافیائی سیاسی ہلچل کے درمیان زیادہ تر اپنے مفادات کے تحفظ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔پہلے پہل معلوم ہوتا تھا کہ مغرب کی اقتصادی پابندیاں ماسکو کی جنگ برقرار رکھنے کی صلاحیت کمزور کرلیں گی۔ امریکہ کی زیرقیادت ایک مہم، جس میں 37 ممالک شامل تھے، نے روس کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو منجمد کرکے اور اس کے مرکزی بینکوں کو نشانہ بنا کر اس کے مالیاتی نظام کی بنیادیں ہلا دیں لیکن اب پابندیاں اتنی تباہ کن نہیں رہیں جتنی مغرب کو اُمید تھی اور مٹھی بھر ممالک مثلا چین اور ترکی نے روس کو برآمدات بڑھاکر اس کی ضروریات پوری کی ہیں۔ کافی ممالک روس کے ساتھ تجارت کے لئے تیار ہیں۔ ممکنہ طور پر امریکہ بھی اگلے سال اپنے صدارتی انتخابات کی وجہ سے جنگ سے تھک جائے گا اور یوکرین پر دبا ؤڈالے گا کہ وہ روس سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کردے۔ یورپی ممالک بھی، جو اپنی معیشتوں اور ان کی سیاست پر جنگ کے نقصانات سے پریشان ہیں، پابندیوں اور ہتھیاروں کی ترسیل کے لئے یوکرین کی حمایت امکان ہے کہ کم کردیں گے یا چھوڑ دیں گے۔ ایشیا، مشرق وسطی اور افریقہ کے وہ ممالک جو پہلے ہی تنازع میں غیر جانبدار ہیں، روس کے ساتھ تجارت میں اضافہ جاری رکھیں گے۔تو کیا مغرب روس کے خلاف متحد رہ سکے گا، اکثر ممالک کو اپنے ساتھ رکھنے کے قابل ہوسکے گا، یوکرین کی مالی و فوجی مدد بڑھا سکے گا، یوکرین کی حفاظت کرسکے گا اور مشرقی یورپی ممالک تک جنگ کی توسیع روک سکے گا۔ آنے والے وقت میں ان سوالوں کے مثبت یا منفی جوابات پر حالات کا دار ومدار ہوگا۔