جب عین شادی کے بجتے ہوئے شادیانوں میں بارات شادی ہال کی دہلیز پر آن پہنچی ہو۔ پھراندر پہلے سے موجود مہمانان گرامی کھانے کی میزوں کو چار اطراف سے احاطہ کئے تشریف فرما ہوں۔ بس بارات کے آنے کی دیر ہوتی ہے اور بعض شادی ہالوں میں اسی وقت کھانا شروع کر دیا جاتا ہے جب بارات کے شرکاء بھی خالوں میزوں کے پاس بیٹھ کر ہال کو بھر دیں۔اس وقت ایسے شریکِ محفل کی عاجزی پر زار ہونے کو جی کرتا ہے۔جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ تو شوگر اوربلڈ پریشر جیسی بیماریوں کے نرغے میں ہے۔وہ صاحب اس وقت سوچ رہے ہوتے ہیں کہ شادی میں شرکت کرنا بھی ضروری ہے اور ایسے زرق برق عشائیے کے موقع پر اپنے اوپر کنٹرول کرنا بھی لازمی ہے۔اب وہ کیا کریں کیا نہ کریں۔ایک طرف ذیابیطس ہے اور دوسری طرف بلند فشار خون ہے۔دونوں میں چاول نوشِ جاں کرنا تو جیسے کسی کے دیئے بغیر کڑوی او رزہریلی گولیاں خود ہی نگلنا ہے۔سوچتا ہے لذتِ زباں کے لئے تو بندہ جیتا ہے پرہیز کرنا ٹھیک ہے۔ پرہیز تو گھر میں اچھا لگتا ہے۔ایسے شادی کے موقع پر خود کو یوں ضبط کرلینا کہ بندہ اپنے ہی ہاتھوں پریشان ہو جائے درست اقدام تو نہیں ہوگا۔ایسی گھڑیاں تو کبھی کبھی آتی ہیں۔ ایک عزیز کا ولیمہ ہو اور بندہ کھانا بھی نہ کھائے اور ویسے ہی وہاں رش بنانے کے لئے پہنچ جائے یہ بھی تو درست نہیں ہے۔عزیز کی حاضری کی روٹی دوبارہ تو نہیں ہونی۔سو اگر کچھ خلاف ورزی ہو جائے تو کسی کا کیا بگڑتا ہے۔شوگر کا تو چلو کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ گھر میں جاکر ایک اور گولی نگل لیں گے۔پھر شادی ہال میں کھانے کی تقیسم کی نقل و حرکت کو نوٹ کر کے جیب میں سے انسولین کا بھرا ہوا انجکشن نکال کر چپکے سے پیٹ میں سمو دیں گے۔مگر بلڈ پریشر کی کتاب میں یہ رعایت ہر روز کی بھی نہیں۔ کیونکہ بعض پیارے تو اس کی پروا نہیں کرتے کہ مجھ کو ہائیپر ٹینشن ہے۔چلو ایک آدھ بار ہفتہ میں سہی اس رول کے خلاف چلے جانا برا نہیں۔ مگر آج کل کی ہر روز کی شادیوں میں جو دوپہر بھی ہیں اور رات کو بھی کسی مصروف سڑک کے کنارے کھڑی بلڈنگ کے شادی ہال میں انجام پا رہی ہیں۔اس قسم کے رسک لینا بہت مہنگا پڑتا ہے۔پھر بعض تو گردوں کے مریض بھی ہوتے ہیں جن کو ان کے معالج نے ساگ سے یوں دور رہنے کو باز کر رکھا ہوتا ہے جیسے کھلی چھتری والے کالے ناگ کے قریب بھی نہ جانا ہو۔ کسی کو ساگ نہیں کھانا کسی کوچاول اور کسی کو میٹھے سے ہاتھ پیچھے رکھنا ہے۔مگر کیا ہے کہ ہم نے خود بھی یہ کام کیا ہے اور ساتھ ہی پیاروں کو بھی یہ خلاف ورزیاں کرتے ہوئے دیکھ رکھا ہے۔پھر اس موقع پر تو خیر کسی کو منع کرنا تو بنتا نہیں۔مگر بعد میں اگر ان سے گپ شپ لگ رہی ہو اور کہہ دیں کہ آپ کا بلڈ پریشر کتنا ہوتا ہے۔پھر کسی سے پوچھ لیں کہ آپ کا شوگر لیول کتنا چل رہا ہے۔اس پر وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہمیں اس صاحب بہادر نے چاول کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ ہمیں شوگر ہے۔وہ بلڈ پریشر کے شکار دوست گپ شپ کے دوران میں اپنے چاولوں کو بے دھڑک کھاتے رہنے کے سو سو جواز نکال کر آپ کی ہتھیلی پر رکھ دیں گے۔اپنے پا س سے لگا دیں گے کہ ڈاکٹر نے کہہ رکھا ہے کبھی کبھی چاولوں پر جی چاہے تو کھا لیا کرو۔خیر پرہیز مشکل کام تھا اور ہے۔ سینکڑوں سال پہلے کے حکیم بھی پرہیز بتلاتے تھے اور آج کی سائنس کے زمانے کے معالجین بھی تو روکتے ہیں۔ مگر پہلے کون رکا ہے جو آج ان خوانوں کو دیکھ کر کوئی اپنی توبہ نہ توڑے۔مگر ان تمام تر حالات کے باوجود ایسے جیدار بھی ہیں جو پرہیزبھی کرتے ہیں۔پھر شادی میں شرکت کرنا بھی تو ضروری ہوتا ہے۔پھر ایسے بھی پرہیز کرنے والے ہیں جو اس خطرے کے پیشِ نظر کہ ہم ولیمے میں گئے نہیں اور چاولوں کی طرف ہاتھ بڑھایا نہیں۔ اس لئے وہ گھر میں رہنا پسند کرتے ہیں کہ چلو گھر کے بچے جا رہے ہیں۔ہم جا کر کیا کریں گے۔جب کھانا ہی نہیں کھانا تو جانا کیسا۔پھر چاول بھی تو چاول ہوتے ہیں۔ ہر شادی کے الگ باورچی اور ہوٹل والے اور شادی ہال کے دیگی الگ ہوتے ہیں۔ پھرچاول بھی تو چاول ہیں جیسے تیسے پکے ہوں مگر ہوں سہی۔ ان کو کھانے میں کسی بد نصیب ہی کو اعتراض ہوگا۔پھر چاولوں کی ایک قسم تو نہیں ہے۔انواع و اقسام کے پلاؤ ہیں اور کھانے والا اس نعمت سے انکار کر دے تو سب سے پہلے اس کواپنا آپ ہی برا لگتا ہے۔اگر اس کا بھلا چاہنے والے اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کو اس کا پرہیز عزیز بھی ہو مگر خود مریض کو تو اس قسم کے بیکار کے کاموں میں خاص کھانے کے وقت کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ سو وہ ٹوٹ پڑتے ہیں کہ بعد میں دیکھا جائے گا۔جو ہوگا سو ہوگا ہونی کوکون روک سکا ہے جو اب میں روکوں گا۔