ہماری عزیز از جان بیٹی مشکات(مِشی) کو ہم سے بچھڑے دو سال ہوگئے ہیں۔ان دوسالوں میں شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزراہوگا جب وہ ہمیں یاد نہیں رہی ہوگی۔اس بات پر پختہ یقین ہونے کے باوجود کہ زندگی اورموت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن ایک ایسی جوانسال بیٹی کہ ہم نے اس کی جدائی کاکبھی سوچابھی نہیں تھا وہ ہم سے یوں اچانک ہمیشہ کے لئے روٹ کر چلی جائے گی۔ کہنے کو تو وہ ابھی بچی تھی لیکن اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے اس نو عمری ہی میں کچھ ایسی صفات پیداکردی تھیں جو کم ہی لوگوں کو ودیعت کی جاتی ہیں۔ جب کوئی اس کو یہ بتانے یا جتلانے کی کوشش کرتا کہ تم لڑکی ہو لہٰذا تمہیں لڑکوں سے موازنے یابرابری کی بات نہیں کرنی چاہئے تو غصے سے اس کا رنگ سرخ ہو جاتا اور وہ یہ بات ہر ممکن طریقے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتی کہ وہ لڑکوں سے کسی بھی لحاظ سے کم تر اور کمزور نہیں ہے۔پچپن میں جب وہ ابھی پوری طرح چل نہیں سکتی تھی میں اسے ٹرائی سائیکل پر بٹھا کر رنگ روڈ کی سیر کرانے لے جاتا تھا، واپسی پر جب یہ تھک کر سو جاتی تو اس کی گردن ایک طرف لڑھک جاتی تو میں اسے ایک ہاتھ سے گود میں اٹھا کر دوسرے ہاتھ سے خالی سائیکل کو کھینچنے ہوئے گھر تک آتا بعض دفعہ یہ جاگ کر ضد کرتی کہ مجھے سائیکل سے کیوں اٹھایا ہے۔ہمارے گھر کے سامنے ایک پڑوسی کی چھوٹی سی دکان تھی وہ فالج کی وجہ سے پوری طرح بولنے سے قاصر تھے لیکن مشکات جو سال ڈیڑھ سال کی تھی گرتے پڑتے خود اس کی دکان پر پہنچ جاتی تھی ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ اس کے دکان کے باہر کھڑی ہے میں نے مشکات کو گود میں اٹھا کر اس دکاندارسے پوچھا کہ آپ اس کی بات کیسے سمجھ لیتے ہیں تو اس نے مذاق میں بتایا کہ بچے جنات کی زبان بولتے ہیں اور وہ اسے بآسانی سمجھ لیتا ہے جس پر میں نے انہیں کہا کہ اسے پیسوں کے بغیر کبھی کوئی چیز نہیں دینی جب بھی یہ کوئی چیز لینے آئے تو اسے یہ کہہ کر واپس بھیجنا کہ پیسے لیکر آؤ یا اگر آپ اسے کوئی چیز دے بھی دیتے ہیں تو بعد میں مجھے بتایا کریں تا کہ میں ادائیگی کردیا کروں اس پر وہ ناراض ہو کر کہنے لگا کہ یہ تواتنی خوش قسمت بچی ہے کہ جس دن یہ نہیں آتی اس دن میرا سودا ہی نہیں بکتا لیکن جس دن یہ صبح سویرے آ جائے سارا دن میری دکان پر گاہکوں کا رش لگا رہتا ہے اس کے اس جواب نے مجھے لاجواب کردیا۔بچپن میں مشکات اپنے چھوٹے بھائیوں اور کزنز کی لیڈر بن کر دکان سے بعض غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء خرید کر آپس میں پارٹیاں لگاتے تھے جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے ان پر پانچ اشیاء پاپڑ، امچورہ، کروتھ، املی اورسلانٹی کی خریداری پرپابندی لگادی لیکن جب مجھے پتاچلا کہ یہ اب بھی چوری چھپے ا س پابندی کی خلاف ورزی کررہے ہیں تو پھر مجھے انہیں کبھی سختی اور کبھی نرمی کے ساتھ ہاتھ کی پانچ انگلیوں کی مدد سے ان مضر صحت اشیاء کے نام اور نقصانات ازبر کرانے پڑے جسے باقی بچے تو جلد ہی بھول گئے البتہ مشکات کوساری عمر نہ صرف وہ پانچوں اشیاء یاد رہیں بلکہ بڑی ہونے کے بعد بھی اکثر مذاق میں انگلیاں گن گن کر ان اشیاء کے نام مجھے چھیڑنے کے لئے یاد دلاتے ہوئے کہتی تھی کہ ابو آپ نے ہمیں بچپن میں ان "پانچ نعمتوں " سے محروم رکھ کرہمارے ساتھ بڑی ذیادتی کی ہے۔مشکات توآج ہم میں نہیں ہے لیکن اس کی ایک ایک بات رہ رہ کر ہمیں اس کی یاد دلاتی ہے۔