زمانہ آگے جا رہا ہے ہم پیچھے جا رہے ہیں۔ہم کچھ نہ سیکھ پائے ۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے او رہم ہاتھی کے کان میں سوئے ہیں۔ ہمیں کچھ خبر ہی نہیں اور نہ خبر ہوئی۔ زمانہ ایک قدم آگے اٹھاتا ہے اور ہم دو قدم خود بخود پھسل کر پیچھے جا پڑتے ہیں۔ہمارے ہاں کا کوئی ایک نظام شفاف نہیں بہتر نہیں۔ کیونکہ ہم زمانے کے ساتھ چل نہیں رہے بلکہ چل ہی نہیں سکتے۔ ہم اسی جھوٹی انا کی قید میں ہیں اور تاحیات سزا جھیل رہے ہیں۔مگر ”جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں“۔ کہنے والے کا تبصرہ ہے کہ وہ جرم جس کا ہم کومعلوم نہیں ہے وہ بے اتفاقی اور آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا ہے۔ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے۔ ایک دوسرے کے مؤقف کو ماننا کیا ہم تو ایک دوسرے کے مؤقف کو سننا تک گوارا نہیں کرتے۔ ایسے میں ہم نے کیا خاک ترقی کرنا ہے۔دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے اورہم وہی تین سو سال پہلے کی روایات اور رسوم و رواج میں جکڑے ہوئے ہیں۔ہمیں اگر کوئی نکالنا بھی چاہے تو ہم اس کو روک دیتے ہیں کہ ہم نکلنا ہی نہیں چاہتے تو آپ ہمیں کیوں نکال رہے ہیں ۔اس لئے کوئی ہمیں اگر نجات دلوانے کی ہمت کرتا ہے تو ہم اس کو تاریک راہوں میں اندھیرے کے پاؤں تلے قربان کردیتے ہیں۔ پھر ہمیں جب خیال آتا ہے کہ ہم نے یہ کیا غلط کر دیاتو ہم پشیمان ہو کر خود آنسو بہاکر ایک اور نئے نجات دلانے والے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجاتے ہیں۔ ہاتھ منہ دھوکر پاؤں بھی صاف کر کے اور اپنے دامن پر سے پہلے والے سرخ دھبے پانی تلے دامن کو نچوڑ کر اپنے حساب سے صاف کرتے ہیں۔ مگر یہ وہ دھبے نہیں جو دھوئے جا سکیں۔جتنا دھوتے ہیں وہ کالک اور زیادہ پھیل کرباقی کے کپڑوں کو بھی آلودہ کردیتی ہے۔کیونکہ ہم زمانے کی چال کے ساتھ قدم اٹھا نہیں رہے۔ زمانہ کہاں سے کہاں جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور پیچھے کھڑے پشیمان بھی تو نہیں ہونا چاہتے۔بلکہ سر کو فخر سے اونچا کئے قہقہے لگاتے ہیں کہ ہم نے توپیچھے رہ کر بہت بڑا کمال کر دکھایا ہے۔اب ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ ہم جسے اپنی آخری قیام گاہ سمجھتے ہیں وہی ہماری آخری آرام بن جاتی ہے اور ہمیں خبر بھی نہیں ہو پاتی۔ہم اپنے آپ کو خبر ہونے بھی نہیں دیتے۔آنکھیں بند کرلیتے ہیں اورکان کے پردے بھی پھاڑ کر پھینک دیتے ہیں۔جیسے ہمیں تو پیدائشی طور پر درست نظر نہیں آتا اور اچانک کے طور پر ہمیں سنائی بھی نہیں دینے لگا۔ایسے میں ہم تو ہوئے اپنے جان کے خود دشمن۔کیونکہ جو قومیں زمانے کے چلن کے ساتھ چلنا نہیں سیکھ سکتیں یا چلنا ہی نہیں چاہتیں وہ تو اپنے مقام پر کھڑی رہ جاتی ہیں۔ہم ترقی کی راہ پر گامزن تو ہیں مگر یہ گول چکر کا رقص ہے سفر نہیں ہے۔اسی گول گول گھوم کر جب ہمیں چکر آنے لگتے ہیں تو ہم رک کر سمجھ جاتے ہیں کہ ہم نے منزل پالیا ہے۔مگر یہ تو سب دھوکا ہے۔یہ نظروں کا فریب ہے اور دما غ کا چل چلاؤ ہے۔اسی فریب نے تو ہمیں اور فریب دے رکھے ہیں۔ہم اس دلفریب دنیا سے باہر آنا ہی نہیں چاہتے کہ اس حالت میں جو مزا ہے وہ ہمارے لئے ترقی کے راستے پر جانے سے سو گنا بہتر ہے۔یہی سوچ ہمیں لے ڈوبی ہے۔ ہم اسی سوچ کے سہارے زندگی کی گزران کررہے ہیں۔تلی میں آیا گلی میں کھایا والا کام ہمارے ساتھ ہو نہیں رہا ہم خود یہ کام کررہے ہیں۔بس ٹائم پاس کرتے ہیں سمجھتے ہیں یہی زندگی ہے۔اس لئے اپنے آپ میں تبدیلی بہت ضروری ہے مگر تبدیلی کیا ہے اور کیسے آئے گی اس کی بھی تو ہمیں خبر نہیں ہوئی اور نہ تو خبر ہے بلکہ ہم جاننا ہی نہیں چاہتے کہ تبدیلی آخر کس چڑیا کا نام ہے۔