چین کی ترقی کے اور بھی کئی راز ہوں گے پر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس انقلاب کو ماؤزے تنگ نے 1949میں بپا کر کے چین کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا تو اس میں ان کو چو این لائی اور ڈینگ جیسے کامریڈز ملے تھے کہ جو ان نظریات کو عملی جامہ پہنانے میں صدق دل سے کام کرتے تھے کہ جن کے ماؤ زے تنگ پرچارک تھے چنانچہ چین ان تین کامریڈوں کی یکے بعد دیگرے قیادت کے طفیل دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا گیا حتی کہ آج زی ژنگ پنگ کی شکل میں اسے جو حکمران میسر ہے وہ بھی ماؤ زے تنگ کے فلسفہ معیشت پر سو فیصد یقین رکھتا ہے اور اس پر سختی سے کاربند ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی نظام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلے اس پر عمل درآمد کے واسطے تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے جو چین کو 1949سے لے کر اب تک میسرہے ایک سابق چینی صدر ڈینگ کا تو یہ کہنا تھا کہ کم از کم ایک سو سال تک چین کو اپنی لائن سے کسی قسم کا بھی انحراف نہیں کرنا چاہئے۔ ڈینگ وہ لیڈر ہے کہ اس نے بیس سال کے اندر ان تیس کروڑ چینیوں کو غربت کی لکیر سے باہر نکالا جو غربت کی وجہ سے مفلوک الحالی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اس قسم کے کارنامے کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس وقت ہمارے زیر مطالعہ 620صفحات ہر مشتمل موجودہ چینی صدر کی لکھی ہوئی ایک کتاب ہے جس میں اس فلسفہ معیشت و سیاست اور چینی حکمرانوں کی سوچ کا احاطہ کیا گیا ہے کہ جن کی بدولت اقوام عالم میں آج چین نے اپنے لئے ایک بلند مقام حاصل کر لیا ہے کہ جس کو دیکھ کر امریکہ جیسی سپر پاور بھی انگشت بندنداں ہے اور دنیا کے ماہرین معیشت بھی۔ذیل کی سطور میں ہم اس فلسفہ سیاست اور عوامی خدمت کی چیدہ چیدہ باتیں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کریں گے کہ جن پر من و عن عمل کرکے چین ترقی کی اس بلندی تک جا پہنچا ہے۔ مندرجہ بالا چینی حکمرانوں کی دانست میں اصلاحات اور قانون کی مثال پرندے کے دو پروں یا گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہوتے ہیں ان کے نزدیک پارٹی کے تمام عہدہ داروں کا دیانت دار ہونا ضروری ہے وہ شخص دوسرے کو کیسے درست کر سکتا
ہے جو خود درست نہ ہوں۔ چین کے مندرجہ بالا رہنما میرٹ کے پرچارک تھے اور انہوں نے اپنے کردار اور کاموں میں اس کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ان لیڈروں نے مارکسزم کو جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ کیا انہوں نے وقار اور انا کا مسئلہ بنائے بغیر مغرب کے اقتصادی نظام کے بعض conceptsپر بھی عمل درآمد کیا۔ یہ درست ہے کہ چین کے 1949کے سرخ انقلاب کے بعد چینی لیڈروں نے ابتدائی چند سالوں میں مغربی ممالک سے چین کو الگ تھلگ رکھا کیونکہ انہیں اس بات کا خوف تھا کہ امریکہ سازش کر کے چینی انقلاب کے ثمرات کو عام چینیوں تک پہنچنے نہ دے گا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ امریکہ خوا مخواہ یہ کوشش کرے گا کہ چین کو کسی عالمی تنازعے میں پھنسا کر اس کی انرجی کو زائل کرے۔چینی قیادت نے 1949سے لے کر 2014تک یہ پالیسی اپنائے رکھی کہ امریکہ کی کسی سازش پر مشتعل نہ ہو اور چین اپنی تمام تر توجہ اپنی معیشت تعلیم اور سائنسی ترقی پر مرکوز رکھے۔ ایک مرتبہ جب چین اس قابل ہو جاتاہے کہ وہ تعلیمی معاشی اور سائنسی میدان میں امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے تو تب دیکھا جاے گا۔ چنانچہ چین نے عالمی برادری میں 2014ء تک low profileرکھا امریکہ نے اس دوران کئی مرتبہ کوشش کی کہ خصوصاً تائیوان کے مسئلے پر اسے مشتعل کرکے جنگ میں ملوث کیا جائے پر چینی زعما ء نے کمال برداشت اور دور اندیشی سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور آ ج اسی پالیسی کی بدولت چین ہر لحاظ سے دنیا کے مضبوط ترین ممالک میں فہرست میں سر فہرست ہے۔یہ خبر بھی چین کی ترقی کا ثبوت ہے
کہ اس نے عالمی وبا ء کے پھیلاؤ کے دوران 20کروڑسے زیادہ شہریوں میں کووڈ۔19کی تشخیص اور علاج میں کامیابی حاصل کی۔شی جن پنگ کی زیر صدارت حکمران کمیونسٹ پارٹی کے طاقت ور بیورو کی قائمہ کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق چین نے 8لاکھ سے زیادہ ان مریضوں کو صحت یاب کر کے، جن پر مرض کا حملہ انتہائی شدید تھا، اس مہلک مرض کو فیصلہ کن شکست دی۔چین نے اس وبا ء پر قابو پانے کیلئے انتہائی سخت لاک ڈاؤن، قرنطینہ اور سفری پابندیاں نافذ کیں تھیں۔چین کی سرکاری خبررساں ایجنسی سنہوا نے صدر شی کے حوالے سے بتایا ہے کہ وبا پر قابو پانے کی پالیسیاں مکمل طور پر درست تھیں۔چین نے گزشتہ سال نومبر میں اپنی زیرو ٹالرنس کی پالیسی کو یک دم ختم کر دیا جس کے بعد وائرس کے پھیلا ؤمیں اضافہ ہوا اور ہسپتالوں پر عارضی طور پر بوجھ بڑھ گیا تھا۔کووڈ کے کیسز میں غیر معمولی اضافے کے بعد اب رفتہ رفتہ زندگی بڑی حد تک معمول پر لوٹ آئی ہے۔ تاہم چین کے اندر اور بیرون ملک ہوائی سفر پر ابھی تک کورونا سے منسلک پابندیاں عائد ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا کے خلاف بھرپور جنگ کے بعد اب یہ مرض، عام وبائی امراض کے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے‘رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت اس سے بچا ؤکیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی رہے گی اور وقت اور حالات کے مطابق اس پر کنٹرول قائم رکھے گی‘اسی طرح محکمہ موسمیات کی یہ پیشگوئی کہ ملک میں بارشوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے والاہے اس بات کی غمازی کرتاہے کہ امسال سردیوں کا دورانیہ طویل تر ہوتا جا رہا ہے اور موسم بہار کے آدھے مہینوں کو سردی اور آ دھ کو گرمی چاٹ جائے گی کیونکہ امسال مارچ کے اواخر سے گرمی کی آ مد کی بھی پیشگوئی کی جا رہی ہے۔ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد تازہ ترین عالمی اور قومی معاملات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔یوکرین کا قضیہ زور پکڑ رہا ہے اگلے روز اسے ہتھیاروں کی فراہمی کے خلاف برلن میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آ ئے۔ ادھر روسی صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین کی جنگ روسی عوام کی بقا کی لڑائی ہے۔