موٹر سائیکل والے

سنتے ہیں کہ پٹرول نے تین سو تک جلد جانا ہے‘زبردست کا ٹھینگا سر پرکیا کرسکتے ہیں‘موٹر سائیکل تو شہریوں نے پہلے ہی گھر میں کھڑی کر دی ہیں پھر پیدل گھومنا شروع کر دیا ہے‘پیدل پھرنا صحت کیلئے اچھا بھی تو ہے۔ہم پہلے پٹرو ل نہ ہونے پر جب گلی محلے میں سودا سلف لینے معمول سے ہٹ کر پیدل نکلتے تو لوگ حیرانی سے ہماری جانب دیکھتے۔اب اگر پیدل نکل چلیں تو ہماری طرف کوئی نہیں دیکھتا‘کیونکہ سب کو سب معلوم ہے‘پہلے تو چھ سات سو روپے میں ٹینکی فل کروا لیتے تھے۔ اب تو ہزاروں دو پھر بھی ٹینکی اگر فل ہو تو مگر جیب میں سینکڑوں نہ ہوں توہزاروں کہاں سے آئیں‘ پھر بعض لوگوں کو بچت کی بھی عادت ہے اب چونکہ وہ بچت نہیں کر سکتے اس لئے بائیک چلانا اگر مکمل ترک نہیں کم کر دیا ہے۔زیادہ تر لوگوں نے قریب قریب سودا سلف کہیں آنا جانا ہو تو پیدل ہی نکلتے ہیں‘بلکہ پیدل جا کر مین سڑک پر پہنچتے ہیں۔ پھر وہاں سے چنگ چی میں بیٹھ کر آگے نکل جاتے ہیں‘وہا ں اُتر کراپنے دوبارہ پیدل گھوم کر آفس پہنچتے ہیں۔جہاں بائیک رکھنے والے آٹھ آٹھ آنسو بہا رہے ہوں وہاں موٹر کار کی کیا حیثیت‘ جہاں موٹر بائیک سانپ کے منہ کی چھچھوندر بن چکا ہو کہ نگلے تو اندھا اگلے تو کوڑھی۔ وہاں کاریں بھی اب سڑکوں پرپہلے سے کم دکھائی دیتی ہیں۔مہنگائی کے اس نگر میں آئے دن پٹرول مہنگا ہوتا تھا‘ انھوں نے اسکے باوجود کاریں نکالی او رچلائیں موٹر بائیک دوڑے پڑتے تھے۔مگر اب تو حد تمام ہو چکی ہے۔حالت یہ ہو چکی ہے کہ پہلے کسی دکاندار کے پاس کھڑے ہوتے تو منٹ دو منٹ بائیک سٹارٹ رکھتے‘اب تو جگہ جگہ رکتے ہیں تو بائیک کے انجن کا سوئچ آف کردیتے ہیں کہ چند قطرے ہی سہی پٹرول کا زیاں نہ ہو۔ایک ایک قطرہ تو یہاں سونے کی کانچوں اور کرچیوں کے مول ہے‘ہر چند کہ بائیک بند کرنے کے بعد سٹارٹ کرتے وقت اس کو خوب لاتیں ماری جائیں‘ اس طرح ماتھے پر پسینہ لانا گوارا ہے مگر اس طرح کہ مہنگا پٹرول ٹینکی میں ڈلوائیں ماتھے پر پسینہ آئے برداشت نہیں‘ اب تو شہریوں بیچاروں نے دوسرا کام شروع کر دیا ہے‘لفٹ لے کر بائیک کی پچھلی سواری بن جاتے ہیں‘چنگ چی سے اتریں توکسی موٹرسائیکل والے کو ہاتھ دیتے ہیں۔ لفٹ لینے والے بعض بیچارے تو آٹھ دس کلو آٹے کا تھیلا بھی ساتھ اٹھائے ہوتے ہیں‘ان کے لئے کوئی بائیک سواررکتا ہے کوئی نہیں رکتا۔مگر خاصا پیدل چلے جانے کے بعد کہیں کسی موٹر سائیکل والے کو رحم آیا تو وہ روک کر ان کو اپنے ساتھ بٹھا لے گا۔مگر رات کو موٹر سائیکل والے یہ رسک نہیں لیتے‘کسی کے پاس پٹرول کی گنجائش نہ ہو تو وہ بائیک نہیں روکتا‘کیونکہ بعضوں کو جنھیں لفٹ دو وہ آپ کے گھر سے آگے جا کر اترنا چاہتے ہیں بعض سفید ریش کمزور ساتھ میں تھیلے لئے ہوتے ہیں‘ اس وقت بندہ ان کو تھوڑا دور لے جاکر اتار دیتے ہیں‘یہ بہت اچھی بات ہے‘ کیونکہ ہم لوگ سب ایمرجنسی کی حالت میں ہیں‘ایک دوسرے کا ساتھ دینگے تو گاڑی چلے گی۔بعضے موٹرسائیکل تو پہلے بھی رکتے نہ تھے کیونکہ بعض سواریاں بہت بوجھل ہوتی ہیں‘ڈر ہوتا ہے کہ اس کو بٹھایاتو بائیک کا پہیہ بیٹھ جائے گا‘ اس ویرانے میں پنکچر کی دکان کہاں سے آئے گی‘پہلے اگرکسی کے پاس پٹرول ختم ہو جاتا اور وہ راستے میں بائیک جیسی ضدی گائے کو گھسیٹ کر پٹرول پمپ کی جانب دھکیلتا تو راستے میں دوسرا بائیک والا اپنی سپیڈ توڑ کر اس کے پاس کھڑا ہوجاتا‘ اگرپٹرول ختم ہو تو بتلاؤ میں اپنی ٹینکی سے نکال کر دیتا ہوں‘ بعض پٹرول لیتے بعض مارے غیرت کے جھوٹ کہہ دیتے کہ بائیک اچانک خراب ہو گیا ہے۔مستری کے پاس لے جا رہا ہوں۔اب تو یہ آفر کوئی نہیں کرتا ہاں کوئی بہت سخی ہو تو ضرور رک پر پٹرول کا پوچھتا ہے۔ مگر جب ساتھ میں بال بچے اہل وعیال ہوں آپ کہیں رکے ہوں یا بائیک کے سمیت پیدل جاتے ہوں تو کوئی نہ کوئی رک کر آپ کو ضرور پٹرول دے گا۔سناسنایا ہے کہ پٹرول کومزید مہنگا کریں گے‘بلکہ سنا سنایا کیا دیکھا دکھایا ہوا ہے۔جب یہ حالتِ زار ہے تو بس امید رکھیں کہ پٹرول نے اوپر جانا ہے اور جلدہی جانا ہے‘موٹر سائیکل والے اب گھروں میں آرام سے بیٹھیں گے۔چلے تو پیدل جائیں گے پھر اچھا ہے کہ صحت کے لئے ڈاکٹر واک کا مشورہ بھی تو دیتے ہیں۔