کسی بھی الیکٹرانک مشین‘ کمپیوٹر اور موبائل کی خریداری کے وقت اُس کی صلاحیت اور کارکردگی کا ناپنے کا پیمانہ ’یاداشت (میموری)‘ ہوتی ہے۔ سیدھا سادا اصول ہے کہ کسی الیکٹرانک آلے کی زیادہ یاداشت (میموری) کا مطلب اُس کی زیادہ قیمت ہوتی ہے اور اِس مقصد کے لئے کمپیوٹروں اور موبائل فونز میں ’ریم (RAM)‘ اور ’روم (ROM)‘ کو دیکھا جاتا ہے۔ ریم جسے بے ترتیب رسائی اور روم جسے منظم رسائی محفوظ رکھنے والی یاداشت کہا جاتا ہے اور یہی اصول کمپیوٹروں کی ایجاد سے آج تک کسی مشین کے انتخاب کا پیمانہ ہے لیکن آج ’میموری (ریم یا روم)‘ ہی کافی نہیں رہے بلکہ کمپیوٹر میں لگی چپ (پروسیسر) کی صلاحیت بھی دیکھی جاتی ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ جس طرح وقت کے ساتھ انسانوں کی یادداشت (حافظے کی صلاحیت) میں تبدیلی آ رہی ہے بالکل اِسی طرح مشینوں کو زیادہ سے زیادہ یاداشت سے لیس کرنے کے تجربات بھی جاری ہیں۔ آج ہزاروں صفحات کی سینکڑوں ہزاروں کتابیں ایک کم قیمت موبائل فون میں ذخیرہ کی جا سکتی ہیں یعنی ہر شخص چلتی پھرتی لائبریری (کتب خانہ) بن سکتا ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اب اکثریت کے پاس کتاب پڑھنے کی فرصت نہیں رہی۔ انسانی یاداشت یعنی حافظہ اِس کی زندگی کی بے ترتیبی کو سکون سے بدل سکتا ہے۔یاداشت کیا ہوتی ہے؟ یاداشت کیوں ضروری ہے اور جس طرح دیگر جسمانی اعضا (ہارڈوئر) کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے بالکل اِسی طرح داخلی کیفیات (سافٹ وئر) کی تندرستی‘ صحت یابی اور توانائی کے لئے کن عوامل کا عمل دخل رہتا ہے یہ بحث ہونا بھی ضروری
ہے۔ گردوپیش میں لوگوں سے اُن کی یاداشتوں کے بارے میں سوال کریں تو بہت ہی کم تعداد میں ایسے لوگ ملیں گے جو یادداشت کی بنیاد پر کئے گئے تجربات کا ذکر کریں۔ انسان بار بار غلطیاں کرتا ہے لیکن اگر وہ اپنی یاداشت سے کام لے تو کم سے کم یہ فائدہ تو حاصل ہوگا کہ غلطیاں دہرائی نہیں جائیں گی۔ یہی صورتحال کمپیوٹروں کی بھی ہے جنہیں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس) سے لیس کرتے ہوئے جس ایک اصول کو پیش نظر رکھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ غلطی نہ دہرائی جائے۔ انسانی معاشرے میں زبانی روایات سے لے کر اقدار تک‘ جن کے مطابق زندگیاں تشکیل دی جاتی ہیں اُن میں یادداشت کلیدی اہمیت کا حامل عنصر ہے لیکن اِس کی بطور معاشرے اور بطور انفرادی حیثیت خاطرخواہ حفاظت نہیں کی جاتی۔ درس و تدریس کے مراحل میں بھی یاداشت پر دباؤ تو ڈالا جاتا ہے لیکن یاداشت کی بہتری اور صحت اور اِس کے فطری اسرار و رموز کے حوالے سے رہنمائی نہیں کی جاتی۔ کوئی انسان اپنے اردگرد پھیلے ماحول اور کائنات کو کس طرح سمجھ سکتا ہے جب تک کہ وہ اپنے آپ کو نہ سمجھتا ہو؟ جہاں تک اجتماعی روئیوں کا تعلق ہے تو قومی واقعات کو
محفوظ کرنے میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ شعبہ (قومی آرکائیوز) بھی خستہ حالی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ جائیداد کی تفصیلات ہوں یا اشاعتیں اور اعلامیے‘ متعلقہ آرکائیوز کے دفاتر سے رجوع کرنے پر گھٹن کا احساس ہوتا ہے۔ ہر طرف غفلت پھیلی نظر آتی ہے جس کا محرک عدم دلچسپی ہے۔ قومی یاداشت کی اہمیت سمجھنے کے لئے صرف ایک مثال کافی ہوگی۔ اگر وزارت ِصحت قومی اور صوبائی سطح پر صحت عامہ سے متعلق فیصلہ سازی کرتے ہوئے ماضی کے تجربات اور اُن کے نتائج مدنظر رکھے تو بڑے اور مشکل فیصلے کرنا آسان ہو جائیں گے اور اُن میں وقت کے ساتھ تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اِن فیصلوں کی روشنی میں صحت کے شعبے میں درپیش چیلنجوں یا وبائی امراض سے نمٹنا بھی آسان ہو جائے گا۔ حفاظتی ٹیکوں اور پولیو و دیگر امراض سے بچاؤ کے لئے انسداد مہمات کی کامیابی کے اہداف بھی باآسانی حاصل کئے جا سکیں گے الغرض یادداشتیں‘ جنہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے درحقیقت یہ طرز عمل تلخ نتائج کی صورت ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ انسان اور انسانی معاشرہ میکانی اِصطلاحات اور اِیجادات پر اِنحصار کرتے ہوئے نت نئی کامیابیاں تو حاصل کر سکتا ہے لیکن اِسے مشین کی طرح اپنی یاداشت کا اسیر نہیں رہنا چاہئے۔ المیہ ہے کہ انسان مشینی زندگی میں الجھ گئے ہیں جبکہ مشینیں بہتر یاداشت اور اِس یاداشت کی بنیاد پر فیصلہ سازی کی صلاحیت حاصل کر چکی ہے! انسانوں کو سمجھنا ہوگا کہ جدید دنیا میں مشینوں کی تو ضرورت ہے لیکن ایسی مشینی زندگی کی گنجائش نہیں جس میں ماضی و حال بطور یادداشت محفوظ نہ ہو۔