وہ گنڈیریاں تو نہیں تھیں 

آج کل آپ کو بازار میں جگہ جگہ ہتھ ریڑھی پر شیشہ کے بکسے میں گنڈیریاں پڑی ہوئی ملیں گی۔ مزے کی چیز ہیں۔لوگ خوشی سے کھاتے ہیں۔ہم تو بچپن میں خوب کھاتے تھے۔ مگراب وہ ذوق و شوق نہیں رہا۔کیونکہ کھانے پینے کی اور لذتیں بھی دستیاب ہیں۔پھر دانت وہ بے وفائی کر رہے ہیں کہ سخت چیزیں کھاتے وقت لگتا ہے کہ اب ایک اور دانت میں سے ٹیس اٹھے گی۔اب کوئی اور دانت نکلوانا نہ پڑے۔جیسے بچے چپڑ چپڑ کھاتے ہیں وہ تو زمانے اب نہیں رہے۔اب تو ایک گنڈیری کہیں کسی نے آفر کی تو لے لی یا گھر کے بچوں کو دبوچ کر ان کے ہاتھ میں تھامی پلاسٹک کی تھیلی سے ایک نکال کر اپنے دانتوں تلے پیس لی۔ یہ بجا ورنہ تو مسلسل اس سلسلے میں اپنے فن کامظاہرہ کرنا اب ہم سے رہ گیا ہے۔ پہلے تو ثابت گنا دانتوں سے چھیل کر کھا جاتے تھے مگر اب تو ایک گنڈیری بھی کھا لیں تو سمجھیں کمال کیا۔اخروٹ توڑنا اور بادام کو دانتوں تلے کچلنا تو خواب و خیال بن چکا ہے۔کیونکہ گنڈیری کو چبانے کے دوران میں دانتوں میں سے کڑ کڑ کی آواز ہمارا دھیان دلاتی ہے کہ دانتوں کے ڈاکٹر نے غلط نہیں کہا تھا کہ شوگر میں دانت ٹوٹتے نہیں اپنی جگہ ہلتے جلتے رہتے ہیں۔رات بارہ بجنے میں کچھ دیر باقی تھی ۔ہمارا ہوائی گھوڑا بمعہ ہمارے اہل عیال ہوا کے دوش پر رواں دواں تھا۔یہ شہر کی مشہور مین سڑکوں میں سے ایک تھی۔جی ہاں یونہی اچانک گھر میں پڑے باسی ہو جانے کے خیال سے دل میں سمایا کہ باہر جا کر اس وقت بہار کی چلنے والی پیاری سی ہوا میں کبھی سردی کبھی گرمی جیسے موسم کا مزا لینا چاہئے۔اپنی خواہش کیا ظاہر کرتے۔کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ بچوں نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا۔ پھر یہیں پہلی بار غالب کا وہ شعر ہماری سمجھ میں پہلی بار اپنی پوری رعنائی کے ساتھ سمجھ میں آیاکہ ”دیکھنا تقریر کی لذت کہ جواس نے کہا۔میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے“۔حالانکہ ٹینکی میں پٹرول کی تنگی آڑے آ رہی تھی۔مگراس وقت رسک لینا عین مناسب سمجھا۔کیونکہ آدھا پٹرول تو دن کے وقت رش میں کھڑے کھڑے انجن کو سٹارٹ رکھنے میں لگ جاتا ہے۔چلو اس قسم کے نقصان کی تو بچت ہوگی۔ سڑکیں خالی ہوں گی۔کوئی راہ میں حائل نہ ہوگا۔پھر نہ تو ہم کسی بڑی گاڑی کی تیز رفتاری کے قائل ہو ں گے اور نہ اس گاڑی کی طرف مائل ہونگے۔سو اس لئے کہا تو چلو اٹھو نکلتے ہیں۔کہتے ہیں صبح کا بھولا ہوا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ مگر اس سڑک میں جو سامنے سڑک کنارے ایک جگہ دس بارہ بندے کھڑے نظر آئے۔جو سین ہم نے دیکھا اس سے یقین ہوا کہ وہ گنڈیریاں بیچنے والا بچھڑ چکا ہے۔کیونکہ سڑک پر دور تک اور دورویہ سڑک کے دوسرے ون وے تک گنڈیریاں بکھری پڑی تھیں۔ ساتھ اس شوکیس کے شیشے بھی دور دور تک بکھرے پڑے ہوئے تھے۔ چلتی ہوئی دو ایک گاڑیاں رک گئی تھیں۔بھیڑ بھاڑ اس لئے نہیں کہ یہ ٹائم رش کا تھا ہی نہیں۔صاف ستھری سڑک مگر شیشوں اور گنڈیریوں سے بھری ہوئی تھیں۔اس گاڑی نے ایک بائیک کو بھی پچکا دیا تھا۔جب لوہے کی بنی بائیک کا یہ حال ہو تو پاس کھڑی ہتھ ریڑھی کے شیشوں اور گنڈیریوں کا کیا حال ہوگا۔ پھر جو وہاں کھڑے ہوں گے ان پر کیا بیت گئی ہوگی۔ ہمارے پہنچنے سے پانچ منٹ پہلے کا واقعہ تھا۔ہتھ ریڑھی بھی یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوئی تھی کہ اب اس کے تختے کسی کے گھر کا چولھا جلانے کے کام آ سکتے تھے۔شاید اسی گھر کے جس گھر کی آمدن کا ذریعہ یہی ضعیف العمر شخص تھا۔ جس کے بارے میں سن رہے تھے کہ اس حادثے میں جاں بحق ہو چکا ہے۔جبکہ دو دوسرے آدمی شدید زخمی ہیں۔ایمبولینس تیز سائرن بجاتی ہوئی اس طرف برق رفتاری سے آ رہی تھی۔وہ بکھری ہوئی گنڈیریاں تو نہیں تھیں۔ وہ تو اگلے کے گھر کا سکھ او رچین تھا جو زمین پر کانچ کے ٹکڑوں کی شکل میں زمین پر یہاں وہاں رات کے اس  سمے قمقموں کی روشنی کا عکس دے رہا تھا۔ایسے کئی حادثے روز ہوتے ہیں۔مگر ان کے بارے میں کسی کو اطلاع ہی نہیں ہوپاتی۔وہ زرد رنگ کی گاڑی بہت تیزی سے آئی اور سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔شاید وہ اس لئے  گاڑی تیز چلا رہا تھا کہ رات کے اس پہر میں بے وقت پڑنے والی سردی میں سڑکیں سنسان پڑی تھیں۔میری سمجھ میں اب تک نہیں آیا اورمیں برسوں سے غور کر رہاہوں کہ یہ لوگ خواہ بائیک ہو یا گاڑی ہو تیز کیوں چلاتے ہیں۔پھر خاص شہر کی معروف شاہراہوں پر شہری علاقے میں تیزرفتاری کیوں؟۔