پینے کے صاف پانی کی فراہمی

آج سے چالیس برس پیچھے چلے جائیے میونسپل کمیٹی یا کارپوریشن والے شہر کے باسیوں کو پینے کا پانی سپلائی کیا کرتے  تھے گھروں میں  کمیٹی کے نلکوں سے آ نے والا پانی اتنا شفاف تھا کہ  کسی کو پیٹ کی بیماری نہیں  لگتی تھی پانی سپلائی کرنے والے ادارے یا تو اس پانی میں potassium permanganate جسے عرف عام میں پنکی کہتے تھے‘ ڈال دیا کرتے تھے اور یا پھر کلورین chlorine سے اس کی صفائی کر دیا کرتے تھے تاکہ عوام کو پینے کا جو پانی ملے وہ حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہو‘ وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح دیگر ریاستی اداروں کی کارکردگی خراب ہوئی بالکل اسی طرح میونسپل ادارے بھی  متاثرہونے لگے اور  تو اور ناقص تعمیر کی وجہ سے ملک کے تقریباً ہر شہر میں زمین دوز گٹر کی پائپ لائنیں اور پینے کے پانی کی پائپ لائنیں آ پس میں   گڈ مڈ ہو گئیں اور لوگوں نے کمیٹی اور کارپوریشن کی طرف سے پانی کی سپلائی کے نصب شدہ نلکوں سے پانی پینا چھوڑ دیا جس کی وجہ سے پھر منرل واٹر کی بوتلوں کا رواج عام ہوا اس جملہ معترضہ کے بعد درج ذیل قومی اور عالمی معاملات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔چین اور امریکہ کے درمیان ایک نئی چپقلش جنم لے رہی ہے حال ہی میں انہوں نے ایک دوسرے پر الزام لگانے شروع کر دیئے  ہیں کہ انہوں نے کورونا وائرس کو  لیب میں تیار کر کے دنیا میں پھیلایا ہے‘ اسی قسم کا الزام امریکہ نے چین پر اس وقت بھی لگایا تھا جب پہلی مرتبہ اس وباء  نے  دنیا میں سر اٹھایا تھا‘یہ جو شیشے کے نام پر  نت نئی منشیات دنیا میں بنائی جا رہی ہیں  اس کی جڑ بھی  تمباکو میں ہی  ہے کسی زمانے میں چرس اور افیون اور نسوار کا زور تھا پھر ایک دور ایسا بھی تھا کہ ہیروئن کا استعمال عام ہوا آج کل شیشہ کے نام سے منشیات نشئی لوگوں کا پسندیدہ نشہ ہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں تعلیمی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں‘ جو لوگ شیشہ بنا رہے ہیں یا اس کو فروخت کر رہے ہیں وہ اس ملک کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور بقول کسے وہ سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں یہ ایک ایسا سماجی مسئلہ ہے کہ جس کا  وزارت داخلہ کو ترجیحی بنیاد پر نوٹس لینا ضروری ہے جو دکاندار یا ریسٹورنٹ اس منشیات کو فروخت کر رہے ہیں‘ ان کو سیل کر کے بحق سرکار ضبط کرنے کے بعد نیلام عام کرنے کی سزا دے کرہی اس لعنت کو ختم کیا جا سکتا ہے اس ضمن میں والدین کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ان بچوں کی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھیں جو سکول یا کالج جانے کے یا گیمز کھیلنے کے بہانے کچھ وقت کے لئے گھر سے باہر رہتے ہیں۔ رمضان المبارک کی آ مد آمد ہے حسب معمول اس ملک کے بعض حریص تاجر نہ صرف ان اشیا ئے صرف کا ذخیرہ کر رہے ہیں کہ جن کی کھپت اس  مبارک ماہ  میں زیادہ ہوتی ہے‘ بلیک مارکیٹرز نے  ابھی سے اپنی چھریاں تیز کرنا شروع کر دی ہیں‘ یہ وقت ضلعی انتظامیہ کے امتحان کا وقت ہے اب دیکھتے ہیں کہ وہ ذخیرہ اندوزوں کے کتنے گودام سیل کرتی ہے اور کتنے بلیک مارکیٹرز کو جیل کی ہوا کھلاتی ہے کیونکہ اس مقدس مہینے میں اشیائے صرف کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے سخت ترین سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔