کیا یہ میری تصویر ہے

گھروں میں گپ شپ کی گیدرنگ ہوتی ہے اس وقت ہم موبائل پر کسی کی تصویر نکالتے ہیں‘ پھر اس کے بعد انہیں کو دکھائیں تو ان میں سے بعض کاکہنا ہوتا ہے کہ یار میری تصویر ٹھیک نہیں آتی کیونکہ وہ تو اپنی دو آنکھوں سے دوسروں کو تو ہر وقت دیکھتے ہیں مگر آدمی اپنے آپ کو سامنے کھڑے بیٹھے بات چیت کرتے ہر وقت تو نہیں دیکھتا۔ بہت ہوا تو دن کو صبح کے وقت ایک وقت میں آئینہ دیکھ لیا اور اپنے بال درست کر لئے مگر بعض تو آئینہ بھی نہیں دیکھتے میری طرح بس ہاتھ منہ دھویا اورکام روزگار کو چلتے بنے ایسے میں کافی عرصہ گزر جاتا ہے کہ وہ اگر روزانہ ایک بار اپنے کو دیکھیں تو دیکھیں وگرنہ تو ان کی نظروں میں سارا جہان کھلم کھلا موجود ہوتا ہے مگر وہ اپنے آپ سے ہمہ وقت پوشیدہ رہتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنی تصویر دیکھیں تو اداس دل کے ساتھ ملاحظہ فرماتے ہیں۔اگر منہ سے نہ بھی کہیں مگر دل میں ہماری طرح گم صم سے ہو ہوں‘ ہاں کر کے اپنی پکچر دیکھیں گے  کیونکہ وہ وقت کی اس تبدیلی کے ساتھ متفق نہیں ہوں گے جو ان کے جسم و جاں پر نمایاں ہونے لگتی ہے‘کبھی مدت کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو اگر دیکھا تو ان کا دل اداس ہو جاتا ہے مگر ایسے بھی جیدار ہیں جو دن میں کئی مرتبہ آئینہ کو تاکتے جھانکتے رہتے ہیں‘آتے جاتے اگر گھر میں شینک پر راستے ہی میں بڑا آئینہ لگا ہو تو اپنے آپ پر نظر ڈالتے ہوئے جائیں گے‘ میرے سمیت بہت لوگ ہیں جو اپنے چہرے مہرے کو اگر تصویر میں بھی دیکھیں تو حیران ہو کر دیکھیں گے‘ اسی طرح عمریں بھی یونہی گزرتی ہیں اور پتا ہو نہیں پاتا‘ہاں اگر جوانی والا چہرہ ہو تو وہ دوسرے کا نہ سہی مگر اپنا اچھا لگتا ہے جب وہ ماضی کی اپنی تصویر کو دیوار پر لگا ہوا دیکھتے ہیں تو مغالطے میں خوش ہوجاتے ہیں  دل میں سوچتے ہیں کہ یار میں ہوں خوبصورت‘اس میں جھوٹ کیا ہے مگر انہیں احساس نہیں ہوپاتا کہ ماضی اور حال دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر انہیں اس فرق کا احساس نہیں ہوپاتا بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو جوانی میں عام سی شکل و شباہت کے مالک ہوں گے مگر بڑھاپے میں آ کر وہ خوبصورت ہو جاتے ہیں ان کے چہرے پر بزرگی کی روشنی ان کی قدرو قیمت میں مزید اضافہ کر دیتی ہے‘ میں بھی اپنی تصویر تو کیا اپنی مووی تک سے اتفاق نہیں کرتا مگر غور کروں تو قدرت کی اس تبدیلی کو فطرت کا قانون سمجھ کر قبول کرتا ہوں اس لئے کہ وقت کی تلوار تو ہر چیز کو کاٹ رہی ہے خواہ دیوار ہو یا عمر ہو‘ یا اور کچھ ہو‘یہی تو زندگی کی روانی ہے جو سیلاب کی طرح بہے جارہی ہے او رہم اس بہاؤ میں تنکے تیلوں کی طرح اپنی مرضی کے برخلاف ان لہروں کے سنگ ان کے سہارے دوڑتے چلے جا رہے ہیں‘قدرت کی تبدیلیوں کو قبول کرنا پڑتا ہے اب سفید بال اگر بزرگی کی علامت ہیں تو لازمی ہے کہ ہم اس عمر کے اس دور سے نکل آئے ہیں جس کوجوانی کہتے ہیں اب ایسا بھی کیا کہ سفیدبالوں کے ساتھ بندہ جوان ہو‘اپنی مووی دیکھ کر اپنی چال ڈھال پر غور نہ بھی کریں دیکھتے معلوم ہوجاتا ہے کہ ہم تو ایسے قدم اٹھا رہے ہیں کہ جیسے بوڑھے لوگ چلتے ہیں۔مطلب یہ ہوا کہ ہم  بڈھے ہوگئے‘ایسے موقع پر ہم اپنی تاریخِ پیدائش کو یاد کرتے ہیں او رایک دونی دونی دو دونی چار کر کے معلوم کر پاتے ہیں کہ اس وقت ہماری ایج کیاہوگی۔اس موقع پر دوبارہ آئینہ دیکھتے ہیں تو آئینہ جھوٹ بولنے لگتا ہے  وہ کہتا ہے نہیں جی آپ خوبصورت ہیں او رآپ ہی خوبصورت ہیں‘باقیوں کو چھوڑو‘یہ آئینہ جو ہے نا یہ بندوں کو دیکھ کر دل میں فیصلہ کرتا ہے کہ یہ خوبصورت ہے کہ نہیں‘ پھر اکثر اس قسم کے لوگوں کیلئے ایک ہی فیصلہ صادر کر دیتا ہے کہ آپ خوبصورت ہیں جو اس خوبصورتی کے خلاف بات کرتا ہے وہ احمق ہوگااسی لئے میں اپنی جوانی کی تصاویر دیکھ لیتا ہوں مگر اب موجودہ لمحات کی تصویریں مجھ سے نہیں دیکھی جاتیں‘دیکھوں تو جی کڑا کر کے دیکھ ہی لیتا ہوں کیونکہ ذہن قبول ہی نہیں کرتا کہ یہ میں ہوں‘کسی ٹی وی پروگرام میں بالفرض چلے گئے تو اپنا ہی پروگرام بعد میں نہیں دیکھتا پروگرام آن ایئر جائے تو یہاں وہاں سے فون آتے ہیں اور ایس ایم ایس اور وٹس ایپ کا میدان گرم ہو جاتا ہے‘ دوست یار کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ آپ کا پروگرام دیکھ رہا ہوں‘ یہاں ہم دل میں کہتے ہیں دیکھتے رہو‘ ہم تو نہیں دیکھیں گے‘پھر عجیب بات بھی کرتے ہیں کہ آپ کتنے اچھے لگ رہے ہیں اس بات سے تو میں اتفاق کرتا ہی نہیں۔