اچھی خبر یہ ہے کہ ’3 مارچ‘ کے روز پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے مستحکم ہوا ہے اِنٹربینک میں 10.9 روپے کی بہتری جو کہ 2 مارچ کے مقابلے 3.82 فیصد بہتری ہے اپنی جگہ اہم ہے اور اِس کا محرک ’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کیساتھ یقینی معاہدہ ہے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایکیپ) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق انٹر بینک مارکیٹ میں 3 مارچ کی صبح پاکستانی روپے کی قدر میں گیارہ روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ روز کے بہتری کے مقابلے زیادہ ہے ذہن نشین رہے کہ 2 مارچ کے روز ایک ڈالر 285.9 روپے پر فروخت ہوا۔ فنانشل ڈیٹا اینڈ اینالٹکس پورٹل (میٹس گلوبل) کے جاری کردہ تجزیئے کے مطابق ”روپے کی قدر میں کمی کے بعد مارکیٹ میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ایک مرحلے پر خیال یہ تھا کہ ’آئی ایم ایف‘ سے قرض نہیں ملے گا جسکی وجہ سے کوئی بھی ڈالر بیچنے کیلئے تیار نہیں تھایہی وجہ تھی کہ ’بلیک مارکیٹ‘ میں ڈالر 290 سے 295 روپے میں فروخت ہونے لگا تاہم زری پالیسی کا اعلان اور شرح سود میں تین سو بیسس پوائنٹس کا اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت ’آئی ایم ایف پروگرام‘ حاصل کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہے‘ اِس سے اُمید پیدا ہوئی ہے کہ عالمی قرض دہندہ کیساتھ معاہدے پر رواں ہفتے دستخط ہوجائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ڈالر کم سطح پر آ جائیگا“ لیکن سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ ”پاکستان کے معاشی دیوالیہ ہونے کا خطرہ ’آئی ایم ایف‘ سے قرض ملنے کے بعد بھی موجود رہیگا“مسلسل معاشی غیر یقینی کی صورتحال کے باعث پاکستان کو جس بحران کا سامنا ہے اُس میں ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر کو استحکام نہیں‘بنیادی ضرورت حکومتی آمدنی میں اضافے کی ہے جس کیلئے ٹیکسوں میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا ہے لیکن اِس سے بھی معاشی مسئلہ حل نہیں ہو رہا جبکہ ضرورت آمدنی کے دیگر ذرائع کی ترقی و تلاش اور حکومتی اخراجات میں غیرمعمولی کمی کرنے کی ہے پاکستانی حکام اور واشنگٹن میں قائم قرض دہندہ مذاکرات میں مصروف ہیں اور فنڈ نے اسلام آباد سے کہا ہے کہ وہ جملہ شرائط کو پورا کرے جبکہ ایسا کرنا ممکن تو ہے لیکن مشکل ہوگا کیونکہ مہنگائی پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اِس میں معمولی سا (مزید) اضافہ عوام کی اکثریت کیلئے ناقابل برداشت ہوگااگرچہ حکومت نے افراط زر سے پریشان حال عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ اگلے ہفتے آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کرنے کی توقع رکھتے ہیں جسکے بعد صورتحال بہتر ہو گی لیکن ’آئی ایم ایف‘ نے ایک اور اہم مطالبہ پیش کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی روپے کی انٹربینک مارکیٹ کی شرح کو افغان سرحد (جسے پشاور مارکیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے) پر رائج شرح کیساتھ جوڑ دے تاکہ ملک سے ڈالروں کا اخراج رک سکے فیصلہ ساز جانتے تھے کہ پشاور کے راستے غیرقانونی طور پر ڈالر افغانستان منتقل ہو رہے ہیں لیکن اِسے روکنے کیلئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے گئے‘ ذرائع ابلاغ میں تواتر سے شائع ہونیوالی رپورٹس کے بعد ’آئی ایم ایف‘ نے کہا ہے کہ ڈالر کے انٹر بینک ریٹ کو افغان بارڈر پر موجود شرح کے برابر رکھا جائے“ یعنی ڈالر کی پاکستانی روپے میں قدر وہی ہونی چاہئے جو مارکیٹ کا نرخ ہے ا حالیہ چند دنوں کے دوران فی ڈالر تین سو روپے کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اگرچہ اِس میں کچھ کمی آئی ہے لیکن کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ فی ڈالر 300 روپے کی نفسیاتی حد جلد ہی عبور کر جائیگا یعنی اگر معاشی بحران جاری رہتا ہے تو صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور کے کرنسی ڈیلر بھی اِس حوالے سے پُراُمید ہیں کہ اگر ’آئی ایم ایف‘ سے معاہدہ ہو جاتا ہے تو اِس سے پاکستان کے معاشی حالات سدھارنے میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔