چاروں اور پھیلے پہاڑوں کے سائے تلے اس وادی میں ہمارے بزرگوں نے یہ شہر آباد کیا تھاجس کو پشاور کہتے ہیں مختلف زمانوں میں اس کو مختلف ناموں سے یاد کرتے رہے‘اس پوری وادی بلکہ دوسرے ملکوں تک پھیلی ہوئی اس سرزمین کو گوتم بدھ کے زمانے میں گندھارا کے نام سے یاد کیا جاتا تھااس کا دارالحکومت گندھار اتہذیب کا مرکز یہی پشاور تھا مگر آہستہ آہستہ اس کا نام بدل گیا اور اس کو باگرام کے نام سے پہچانا جانے لگا۔موجودہ وقت گورنمنٹ سپیریئر سائنس کالج کے میگزین کا نام بھی باگرام ہے‘ مزید یہ کہ گورنمنٹ کالج فقیرآباد پشاور کے سالانہ میگزین کا نام گندھارا ہے‘پھر ایک وقت آیا کہ اس شہر کا نام پرشا پور بھی پکارا گیا پھر اس کو پیشہ ور بھی کہا جانے لگا اب لمحہ ئ موجود میں یہ نام مختلف کروٹیں لیتا ہوا پشاور بن چکا ہے یہ تو آہستہ رو مگر مسلسل تعمیر و مرمت سے گزرنے والا شہر ہے جہاں آج بھی تعمیراتی سلسلے لمبے بالوں کی طرح خوبصورتی سے روز افزوں دراز ہو رہے ہیں‘بعض شہروں کو بنایا جاتا ہے کیونکہ ضرورتیں ہی تو ایجاد کاسبب ہوتی ہیں ان شہروں کی بنیاد میں پہلی اینٹ کا نام ضرورت ہوتا ہے مگر یہ شہر پشاور جانے کب سے آباد ہے ہزاروں سال پہلے اس کی تاریخ کے صفحات کی کرول کریں تو زیادہ ہوتے جاتے ہیں اس تلاش اور پھرول کے دوران میں کتنی قوموں کا سراغ ملتا ہے وہ جو یہاں آکر مقیم ہوئیں اور اس راہ سے ہوکر آگے دہلی کے پایہ تخت تک پہنچ کر فتوحات کے سلسلوں کو آگے بڑھایا۔یہ شہر گیٹ وے ہے دوسری اقوام جو برصغیر پر آکر حکومت کر گئیں اسی راستے سے ہوکر گئی تھیں۔جون ایلیا کاخوبصورت شعر ہے”کیا ستم ہے کہ اب تری صورت۔ غور کرنے پہ یاد آتی ہے“ مگر اس شہر کی تاریخ پرکون فکر کرے بس جو زمانہ ئ حال میں اس وقت ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی کوئی تاریخ نہ ہوگی مگر تاریخ میں اس شہر کو کیا روندا گیا ہوگا‘خود ہم نے اس شہر کو رجھ کر پامال کیا لہولہوکیا ہے‘مگر پھر بھی ہم اپنی پہچان کے لئے اسی کے ساتھ وابستہ ہیں اور منسلک رہنا چاہتے ہیں مگر بعض ایسے بھی ہیں جو اس شہر کی رکنیت و شہریت پر بجائے اس کے ناز کریں الٹا شرمندہ ہوئے پھرتے ہیں‘ وہ اس شہر کو چھوڑ دینا چاہتے ہیں دوسرے شہروں میں جا کر بسنا چاہتے ہیں اب یہ شہر ویسا تو نہیں رہا کہ جیسا تھا اب تو یہ شہر پھیل کر اور وسیع ہوکر اپنے آپ میں سات پشاوراو ربسالایا ہے مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی اوراس کو خراب کرنے میں کوشاں رہ کرآگے آگے جاتے رہے‘اس نے ہم پر دل دکھایا او رہمیں آباد رکھاشاد رکھامگر ہم نے اس کو ناشاد کر دیا‘اداس کر دیا۔یہ شہر ہم سے خفا ہے‘اس کی دھیمی دھیمی آوازیں روز رات کے اس وقت جب خاموشی چار سو سروں پرسایوں کی صورت چھا کر اپنی چھایا دیتی ہے‘ سننے میں آتی ہیں ناصر کاظمی کے بقول ”ہر شے پکارتی ہے پسِ پردہ ئ سکوت۔لیکن کسے سناؤں کوئی ہم نوابھی ہو“کیونکہ بقول مصطفیٰ زیدی ”کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے۔فقط ایک دل تھا اب تک سو وہ مہرباں نہیں ہے“ یہ شہر بھی اپنے سکوت کے پردے میں پکار رہا ہے مگر اس کی پکار کا کوئی جواب تب دے جب وہ سنے بھی تو سہی‘وہ سکوت و سکون رات کے پچھلے پہر ہوتا ہے جب شہر والے آرام کی نیند میں مزید ترقی کے خواب اور اپنے کاروبار اور ہستی کے پھیلاؤ کے سپنے دیکھ رہے ہوتے ہیں اس وقت یہ شہر روتا ہے مگر دھیمی دھیمی آواز کے ساتھ۔کسی کو رات کے اندھیروں میں آواز سنائی دے گی۔آواز آئے مگر دکھائی نہ دے تو دل کی طرف دھیان ضرور دیجئے گا۔وہ آواز آپ کے دل کی خلشِ نہاں سے آتی ہوگی۔میں کہتا ہوں انہیں نیند کیسے آتی ہوگی جو اس سمے محوِ خواب ہوں گے۔جو گزر گئے ان کی قبریں منور ہوں اور جو اس شہر کے باسی زندہ ہیں ان کو لمبی زندگی عطا ہو۔مگر نذیر تبسم نے کہا ”زمانے قدر کر ان کی کہ اب شہرِ پشاور میں۔بزرگوں کی نشانی بس یہی دو چار چہرے ہیں“۔ہم نے جو گزرے ان کی قدر نہ کی ان کو قدر افزائی سے نہ دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب موجودہ شخصیات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے لئے ہمارے پاس آنکھ کہاں۔کوئی نابغہ ئ روزگار کہا ں رہ رہا ہے کسی کو کیا دھیان۔ ان کاتو سارا خیال اپنے روزمرہ کے کاروبار اور دواطراف سے ہوکر چہار سو ہے۔ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ عالم میں انتخاب اس شہر میں ان یکتائے زمانہ چہروں کی خوبصورتی کو دیکھ پائیں۔ہم نے اس شہر کو خوب دل بھر کے خراب کیا ہے اس کی سڑکیں توڑ دیں جگہ جگہ سے نالیاں نکال کر اپنا کام تو نکال لیا۔جو کوئی نیا گھر بنا رہا ہے اور اس کے گھر میں پرنالوں کی نکاسی کا بندوبست اگر نہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔اگر پاس نہر بہہ رہی ہے تو بلائیں مشینری والوں کو کہ وہ سرکاری سڑک کو برچھے سے کاٹ کر اس میں سے لاکھوں میں ایک نالی پیدا کردیں۔پھر یوں اس نالی میں گھر کے گندے پانی کو سامنے نہر میں ڈال دیں۔انہوں نے شہر کے بسنے کی یہی صورت نکالی ہے۔فیض احمد فیض نے کہا ”اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک۔اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے“۔