یہ امر خوش آئند ہے کہ شنگھائی تھرکول منصوبے سے 1320 میگا واٹ بجلی کی پیداوار شروع ہو گئی ہے جس سے نیشنل گرڈ سسٹم میں مزید 1320 میگا واٹ کا اضافہ ہوگا اس سے امید ہے کہ موسم گرما میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ کو کم کیا جا سکے گا، یہ دانشمندانہ اقدام ہے کہ مہنگے فرنس آئل کی بجائے مقامی کوئلے سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ترجیح دی جارہی ہے پر اس بات کا دھیان رکھنا ضروری ہو گا کہ اس سے فضا میں آ لود گی کہیں زیادہ نہ ہو جائے، یعنی ماحولیاتی آلودگی سے متعلق امور کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ اگر جدید ٹیکنالوجی کا ااستعمال کیا جائے تو کوئلے سے ماحول دوست توانائی کا حصول بھی ممکن ہے اور اس وقت ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ مقامی وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے تاکہ توانائی کے شعبے کو درآمدی بوجھ سے نجات ملے اور ملکی وسائل سے ہی یہ ضرورت پوری ہو۔ اس جملہ معترضہ کے بعدبین الاقوامی امور کا جائزہ لیتے ہیں۔یوکرین پر روس کے حملے کا دوسرا سال شروع ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مغربی ممالک کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے موجودہ عالمی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا نظام اصولوں پر قائم ہے اور ان قوانین میں تبدیلی کے واضح آثار اب موجود ہیں۔ترقی یافتہ ممالک (امریکہ اور یورپی ممالک) چین، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ترقی پذیر ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنا ساتھ دینے پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔مغربی ممالک یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف یورپ پر حملہ بلکہ
جمہوری دنیا پر حملہ قرار دے رہے ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی اُبھرتی ہوئی طاقتیں یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کی مذمت کریں۔لیکن چین اورپاکستان سمیت بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی روس اور یوکرین کی جنگ کو پوری دنیا کے لیے درد سر نہیں سمجھتے۔ یہ ممالک بڑی حد تک اس جنگ کو یورپ کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور ایک ایسا مسئلہ جو امریکہ کا پیدا کردہ ہے اور جس سے امریکہ ہی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ روس کی دہلیز پر اگر کسی ملک کو اس کے خلاف اڈہ بنایا جائے تو یقینا روس کا رد عمل وہی ہوگا جس اس نے یوکرین کے خلاف ظاہر کیا ہے اور ایسے میں امریکہ کی کوشش ہے کہ پوری دنیا کو روس کے خلاف اپنے ساتھ ملایا جائے تاہم اب دنیا امریکہ کے کہنے میں آکر آنکھیں بند کرکے اس کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں۔اس وقت زیادہ تر ترقی پذیر ممالک نے یوکرین کی جنگ کے حوالے سے انتہائی سوچ سمجھ کر غیر جانبداری کا راستہ چنا ہے اور دیکھا جائے تو یہ امریکہ کیلئے دھچکہ ہے جو چاہتا ہے کہ دنیا اس کی اندھا دھند پیروی کرے۔شام میں فرانس کے سابق سفیر اور پیرس میں قائم تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ مونٹیگن کے خصوصی مشیر مشیل ڈوکلو کا کہنا ہے کہ معاشی محاذ پر، روس کو غیر جانبدار
ممالک کی طرف سے چلائی جا رہی سیاست سے فائدہ ہو رہا ہے۔امریکی سکالر جان ایکن بیری کا دعوی ہے کہ امریکہ کی زیر قیادت موجودہ عالمی نظام شدید مشکلات کا شکار ہے۔ مشرق وسطی، مشرقی ایشیا اور یہاں تک کہ مغربی یورپ میں دیرینہ علاقائی نظام یا تو تبدیلی سے گزر رہے ہیں، یا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ عالمی بین الاقوامی معاہدے، ادارے، تجارت اور ہتھیاروں کے کنٹرول سے ایک نیا منظر نامہ سامنے آرہا ہے۔یوکرین میں جنگ شروع ہونے سے بہت پہلے موجودہ عالمی نظام کو چین جیسی ابھرتی ہوئی عالمی طاقتیں چیلنج کر رہی تھیں۔ اور بہت سے ممالک یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ابھرتی ہوئی طاقتوں کو اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں میں نمائندگی کیوں نہیں دی جانی چاہئے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی قیادت میں بین الاقوامی نظام کا یہ بحران ابھرتے ہوئے ممالک کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گا۔ خاص طور پر چین اور دیگر غیر مغربی ترقی پذیر ممالک کے لئے۔ ان مواقع کی مدد سے یہ ترقی پذیر ممالک عالمی نظام کو نئی شکل دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ان ممالک میں نئے ورلڈ آرڈر کا مطالبہ کرنے والی آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہیں اور اس سے غالب امکانات پیدا ہوگئے ہیں کہ جلد ہی دنیا کو امریکہ غلبے کی بجائے ایک متوازن عالمی نظام مل جائیگا۔جہاں ایک ملک دوسرے ملک کے وسائل کا استحصال کرنے کی بجائے مشترکہ طور پر استفادہ کرکے ترقی کی راہیں ہموار کرنے کے اصول پر گامزن ہوگا اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے کہ عالمی برادری کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ مل کر کیا جائے اور اولین ترجیح کے طور پر غربت و افلاس کو ختم کیا جائے۔