شہر اُداس


مگر امید ہے کہ ہم اس دگرگوں صورتِ حال سے نکل آئیں گے۔ قوموں پر اس قسم کی مشکلات آتی ہیں۔مگر ہم حوصلہ نہ ہارے تو جلد اس اجنبی کیفیت سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔مہنگائی نے بازاروں کو سونا سونا کر دیا ہے  ہفتہ کے ساتوں ایام لگتا ہے آج چھٹی کا دن ہے۔کیونکہ بازاروں کی وہ رونق جو مہنگائی سے قبل تھی نہیں رہی۔وہ چہل پہل جو بازاروں کے ماتھے کا جھومر تھی۔دلہنوں جیسا شہر اجڑی ہوئی مانگ کے ساتھ وہ رونق پھر سے مانگتا ہے۔بازاروں میں دن دیہاڑے سناٹوں کا راج ہے۔ بازاروں میں رش تو ہے اس میں کیا شک ہے۔مگر پانچ  افراد اگر سودا سلف لینے کو  آئے ہیں تو بیس یوں ہی گھوم رہے  ہیں۔جو کسی سودا سلف لینے کو نہیں آئے۔بس یونہی آوارہ مزاجی نے ان کو مجبور کردیا اور وہ بازاروں میں کچھے چلے آئے۔ دکانیں دیدہ زیبی کے ساتھ یوں آراستہ  کی گئی ہیں کہ ہر دل ان دکانوں کی طرف لپکتا ہے۔ مگر قوتِ خرید بھی تو ہو۔میک اپ او رجیولری کا سامان موجود ہے۔ مگر گاہک نہیں ہیں۔شہر اُداس اور گلیاں سُونی ہیں۔دردیوار چپ اور ناچار چپ ہیں۔ان بازاروں میں رکشے بھی گھسے ہوئے ہیں گاڑیاں بھی ساتھ موٹر سائیکل بھی ہیں۔دکانوں میں رنگ رنگ کی اشیائے ضرورت موجود ہیں مگر جن لوگوں کو ضرورت ہے وہ جو نہیں ہیں۔ کیونکہ زمانے نے وہ کروٹ لی ہے کہ اب ان کو میک اپ سے زیادہ اس بات کا خیال ستا رہا ہے کہ گھر میں آٹا ہی نہیں ہے۔ایسے میں ان بازاروں میں اگر دکانداروں کے پا س کوئی گاہک سیڑھی چڑھ جائے تو اس کی جیب یہیں خالی ہو جائے گی اور کام کا سامان بھی پورے کا پورا خریدا نہیں جاسکے گا۔ بازاروں میں وہ شہریوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جو اپنے جوش میں ہوتا تھا اب اس کا جوش وجذبہ صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ جس کو جو کچھ ملتا ہے اس پر شکر کرنا چاہئے۔۔شہری بہت اُداس ہیں وہ چاہتے ہیں کہ زندگی میں وہ ہنگامے دوبارہ لوٹ آئیں۔وہ تو انتظار کر سکتے ہیں مگر بچے نہیں۔بچوں کو تو عالمی مالیاتی اداروں کے چال ڈھال اور چال چلن کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔پھر نہ ہی وہ جاننا چاہتے ہیں۔چائے کی جگہ لوگوں نے قہوہ پینا شروع کر دیا ہے۔حالانکہ قہوہ پینا بھی تو بس میں نہیں۔صرف ایک ٹائم پیا جا سکتا ہے یا بہت ہوا تو دوسری بار۔اگر اس سے زیادہ پینا ہوا تو کہیں مہمان کی حیثیت سے گئے تو وہاں مل سکتا ہے۔قہوہ میں یہ ہے کہ کم از کم دودھ کی بچت تو ہوگی۔چائے کی پتی الگ اور قہوے کی پتی جدا جدا مہنگے آئٹم ہیں۔بلکہ سستا کون سا ہے ہر شئے مہنگی ہے۔الائچی تو اب دکاندار تول کر نہیں بلکہ گن کر دیتا ہے۔دکاندار اپنی جا پریشان اور گاہک اپنے مقام پر پریشاں حال ہیں۔دونوں اپنے اپنے مقام پر نہیں ہیں۔دونوں اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔ہم چھوٹے تھے تو اس وقت بھی بعض گھرانے صبح کے وقت ناشتے میں قہوہ نوشِ جاں کرتے تھے۔شاید بچت کرتے ہوں گے۔مگر اب نئی فضا آب و ہوا میں شہریوں نے اپنے اوردودھ والی چائے کے بجائے قہوہ پینا گوارا کر لیا ہے۔اب کے تو بچت نہیں۔ بس گاڑی کو دھکا دے رہے ہیں۔بلکہ سر گاڑی اور پاؤں پہیہ کئے ہیں۔ وہ کہ جو چلتی رہے توگاڑی ہے ورنہ کھٹارا کہ اٹھا کر قریب نہر میں پھینک دو۔بازاروں میں گھوم کر غالب کا وہ شعر یاد آیا جس میں فرماتے ہیں کہ ہم گھر کو ویران  سمجھ کرنکل آئے۔ ہم ویرانے پہنچے تو اندازہ ہوا کہ یہاں وہ مزانہیں ہے۔دونوں میں سے ہمارا گھر ویرانی میں زیادہ قابلِ توجہ ہے ”کوئی ویرانی سی ویرانی ہے۔دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا“۔کل معلوم ہواکہ آٹے کی بوری تین ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔جس چیز کا نرخ معلوم کرو تو دکاندار غلط  بتلاتا ہے۔شکایت کرو تو فرماتا ہے جو ریٹ آپ نے بتلایاوہ تو کل کے دن تھا آج کے دن تو ریٹ کی نئی فہرست آئی ہے۔ہم کون سا اپنے پاس سے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ہمیں مہنگاملتا ہے تو ہم بھلا کیوں اشیاء کو سستا کر کے فروخت کریں۔