اخبار میں خبر لگی ہے کہ پشاور کا شاہی باغ اپنی آب وتاب سے محروم ہونے کو ہے خبر میں بتایا گیا ہے کہ درختوں اور پھولوں کی نگہداشت کا نظام سُست پڑگیاہے گھاس کی جگہ مٹی اُگ آئی ہے شاہی باغ کا حسن روز بروز ماند پڑتا جارہا ہے خبر پڑھنے کے بعد ہم چار دوستوں نے شاہی باغ کی سیر کا پروگرام بنایا۔ ایک زمانہ تھا جب پشاور کو باغوں کا شہر کہا جاتا تھا اور پشاور کا شاہی باغ پورے وسطی ایشیاء میں شہرت رکھتاتھا۔ تاشقند، ثمرقند، کابل اور قندہار سے لوگ شاہی باغ دیکھنے آتے تھے‘شاہی باغ نے وطن کی تاریخ میں قائداعظم محمد علی جناح کی میزبانی کی تھی، پشاور میں فٹ بال کے مشہور کھلاڑی طہماس خان اور ہاکی کے شہرت یافتہ پلیئر لالہ ایوب وغیرہ شاہی باغ سے اُبھرکر برصغیر پر چھا گئے تھے۔پشاور کے دیگر باغات میں وزیر باغ،ڈبگری باغ اور علی مرداں باغ کی بھی شہرت تھی پھر ایسا ہوا کہ ہم نے ترقی کا راستہ اختیار کیا اور ترقی کے سفر میں ہم نے ماضی سے منہ موڑ لیا۔کسی اُستاد اور کسی لیڈر نے
ہمیں انگریزی کا وہ مقولہ نہیں سنایاجس کا ترجمہ کرکے اردو میں یوں کیا جاتا ہے کہ تم اگر اپنے ماضی پرپستول سے فائر کروگے تومستقبل تمہیں تو پ کے گولے سے اُڑا دیگا۔ یہ مقولہ ہم نے کبھی نہیں سنا، اگر سنا تو سن کے اُڑا دیا۔ جو لکھا تو پڑھ کے مٹادیا۔فرینکفرٹ، پیرس، ٹوکیو بیجنگ اور شنگھائی کے شہروں میں بڑی ترقی ہوئی ہے لیکن ترقی نے کسی شہر کا حلیہ نہیں بگاڑا۔ بلکہ ترقی نے ہر شہر کو پہلے سے زیادہ خوب صورت کردیا۔ شہر کے پرانے آثار محفوظ رکھے گئے۔ باغوں کو مزید سجایا گیا، تاریخی عمارتوں کو محفوظ کیا گیا قدیم تاریخ کا اتنا خیا ل رکھا گیا کہ شہر کے جدید حصے میں اگر 70منزلہ پلازے نظر آتے ہیں تو شہر کے دوسرے حصے میں 100سال پرانی گلیاں‘ 100 سال پرانے گھر اصلی حالت میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔آپ شہر کے پرانے حصے کی سیر کرکے 100سال پرانی تہذیب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہر شہر سے تعلق رکھنے والے نامور شخصیات کے گھروں کو اُس شہر میں عجائب گھر بنایا گیا ہے۔فرینکفرٹ میں گوئٹے کا گھر عجائب گھرہے سڑیٹفورڈاپان ایون میں شیکسپیئر کے گھر کو عجائب گھربناکر برطانوی حکومت نے اپنا فرض نبھایا ہے چینی صوبہ شینڈونگ کے شہر چوفو میں کنفیوشس کے آبائی گھر کو چینی حکومت نے عجائب گھر کا درجہ دیاہے۔ترقی کرنے والی قومیں ماضی کو بھلاکر ترقی نہیں کرتیں،ماضی کو ساتھ رکھتی ہیں۔ ہمارے ہاں امیر حمزہ خان کے دیوان کا ترجمہ یوں کیا جاتاہے کہ میں عہد رفتہ کی روایتوں کو مستقبل کی طرف لے جارہاہوں زمانہ حال
کے جذبے اور ولولے میرے لئے زاد راہ کا کام دیتے ہیں انہی خیالات میں گم ہم چار دوست شاہی باغ پہنچ گئے توہم نے اخبار کی صداقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔حاجی صاحب نے کہا چلووزیر باغ چلتے ہیں، وکیل صاحب بو لتے ہیں وہاں بھی وہی نقشہ ہے، ڈاکٹر صاحب نے کہا ہم نے وزیر باغ میں ہاکی اور فٹبال کھیلا ہے ہماری بڑی اچھی یادیں وزیر باغ سے وابستہ ہیں ابھی ہم وزیر باغ کے راستے میں تھے کہ دوستوں کو علی مردان کا باغ یاد آیا۔ وزیر باغ کی سیر کے دوران دو سوالات بار بار ذہن پر دستک دیتے رہے پہلا سوال تھا کہ عوامی نمائندے ہمارے باغات کے لئے فنڈز کیوں نہیں رکھتے اور دوسرا سوال یہ تھا کہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے کیا کا م کرتے ہیں۔علی مردان باغ کو اب خالد بن ولیدپارک کہا جاتاہے کنٹونمنٹ بورڈ اس کی نگہداشت کرتی ہے اور اس تاریخی باغ کو قابل رشک حالت میں رکھا ہوا ہے ہم نے کہا کاش ہمارا شاہی باغ بھی کنٹونمنٹ میں ہوتا کاش وزیر باغ بھی یہیں کہیں ہوتا۔