بائی سائیکلیں نکال لی گئی ہیں۔ کپڑا شپڑا بھگو کر ان کو صابن سے چمکا دیا گیا ہے۔اب تو شہر کے بسنے کی یہی امید باقی ہے۔ جن کے پاس پرانی کھڑنک سائیکلیں سٹور میں پڑی تھیں اور آڑے وقت کے لئے شاید نہ بھی سنبھالی ہوں مگر اب انھو ں نے نکال کر تھوڑی بہت مرمت کر وا کر چلانا شروع کر دی ہیں۔سنا ہے کہ جب سے سائیکلوں کی ڈیمانڈ بڑھی ہے اب یہ چیز جنسِ نایاب بن گئی ہے۔ جو لے گا نئی قیمت پر لے گا اور پرانی کہیں سے خریدے بھی تو نہیں ملتی۔ ملے گی تو بیچنے والے کی مرضی پر قیمت دینا ہوگی۔پہلے تو بازاروں اور سڑکوں پر سائیکلوں کی انٹری نہ ہونے کے برابر تھی۔بہت ہوا تواکادکا سائیکل نظر آجاتے تھے۔مگر اب تو یہ حال ہے کہ سائیکل کے بنا جی سکیں گے نہ ہم۔ایک سبزہ زار میں دو آدمی چارپائی پر گپ شپ میں مصروف تھے۔وہاں ان کے ساتھ ایک بائی سائیکل بھی کھڑی تھی۔یہ میرے لئے نیا منظر تھا۔پھر اس کے بعد میں نے گھر تک پہنچتے پہنچتے کافی سائیکلیں دیکھیں جن پر بچے تو کیا ادھیڑ عمرکے شہری سوار تھے۔ بلکہ میں تو ایک سفید ریش کو جانتا ہوں جو بچوں والی سپورٹس سائیکل پر گھومتے ہیں۔ پھر کمال بات یہ ہے ڈرتے جھجکتے بھی نہیں بہت سپیڈ سے تیز تیز پیڈل مارتے ہوئے جاتے نظر آتے ہیں۔اگر پیدل نظر آئیں تو ساتھ سفید رنگ کی ایک بکری کو لے کر گھومتے ہیں۔شاید ان کا بزنس یہی ہے کہ ایک بکری کو کھلا پلا کر بڑا کر کے بیچا اوردوسری خرید لی۔اب تو پیدل گھومنا ہے یا سائیکل پر بغیر انجن کے چکر لگانے ہیں۔ وہ بائیک پر چکر وکر لگانے کے زمانے گئے۔ہواخوری گئی خاک ہوئی بلکہ دھول گرد و غبار میں کہیں گم ہو گئی۔اب تو اتنا پٹرول ٹینکی میں ہو کہ گھر کے سوداسلف لانے کو قریب قریب سے ہو آئے تو بہتر ورنہ تو بائیک سواروں کو میں نے دیکھا کہ پہلے تو ایسا نہ کرتے تھے مگر اب کہیں کھڑے کسی آدمی سے بات کرتے ہوں تو انجن کا سوئچ آف کر کے بات کریں گے خواہ ایک منٹ کے لئے کھڑے ہوں۔کیونکہ پہلے قطرہ قطرہ سے دریا بنتا تھا اب پٹرول بنتا ہے۔ایسی افتاد پڑی کہ اب تو پیدل بھی چلو تو سمجھو کہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔ایک منظر دیکھا کہ ایک راہگیر بائیک کو دائیں ہاتھ سے ہینڈل پکڑ کر پٹرول بند کر کے پیدل جا رہے ہیں۔ میں نے آواز بھی دیا۔کیوں جی پٹرول تو ختم نہیں ہوا۔ کہنے لگے نہیں نہیں پیدل چلنا چاہتا ہوں۔ وہ شاید واک کرنے کے موڈ میں ہوں یا پٹرول ہی ہوا میں اُڑ گیا ہو۔بہر حال اس بارے میں راوی خاموش ہے کہ اصل کہانی کیا تھی۔ مگر ہمارا اندازہ ہے بائیک میں پٹرول تھا اور ان کی طبیعت بھی مائل تھی کہ لات مار کراس کو سٹارٹ کریں اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو جائیں۔ لیکن ان کو پٹرول کی بچت عزیز تھی۔یعنی جہاں تک پیدل جا سکتے تھے جائیں گے پھر تھک گئے تو وہاں سے آگے موٹر سائیکل سٹارٹ کریں گے اور سوار ہو کرچلتے چلیں گے۔ایک ادھیڑ عمر کے شخص کو دیکھا سائیکل پر سوا رہیں اور ساتھ کسی دوسری سواری کو بھی لاد رکھا ہے۔مگر جب چڑھائی آئی تو کیریئر پر بیٹھا آدمی جمپ لگا کر نیچے کو د گیا۔ کیونکہ سائیکل چلانے والے کے ہاتھ لرزنے لگے تھے۔پھر اس لئے بھی کہ اوپر سے گاڑیاں آ رہی تھیں۔میں غور کرنے لگا کہ یا تو پٹرول کی گرانی نے میرا دھیان اس طرف ڈال دیا ہے کہ اب مجھے سائیکل سوار زیادہ نظر آنے لگے ہیں جو پہلے دکھائی نہیں دیتے تھے۔پھر یا تو سچ مچ پٹرول کے نرخوں کی کارستانی کے سبب ایسا ہوا ہے اور سچ میں اب سڑک پر سائیکل کم کم سہی مگر نظر آتی ہیں۔بچے بھی اپنی سیر خودکرنے کو اپنی سپورٹس سائیکل نکال کر خود ہی چکر لگاتے ہیں اور واپس گھر کی راہ لیتے ہیں۔کاش یہ سائیکلیں جو ہم آج سے پچاس سال پہلے سے چلا رہے ہیں اگر اب تک چلا رہے ہوتے تو چین کے بڑے بڑے لیڈروں اور بڑے حکام کی طرح سائیکل چلاتے چلاتے ہم ترقی کی دوڑ میں کہاں سے کہاں نکل جاتے۔ کیونکہ وہاں تو صدر اور وزراء بھی سائیکلوں پر آفس آتے جاتے ہیں۔خیر ہم نے ایک آدھ سائیکل ہی بنائی ہے جو پہلے زمانے میں کچھ سستی مل جاتی تھی۔ پہلے تو ہمارے ہاں سائیکل کے لئے بینک سے قرضہ بھی مل جاتا تھا جو چند سو روپے ہوتا تھا۔بس ڈاؤن پیمنٹ دو تو اس ایڈوانس کے بعد بینک سے سائیکل نکال لو۔پھر چائنا کی سائیکل نے وہ راج کیا کہ جس کے پاس چائنا کی سائیکل ہوتی وہ شہنشاہ ہوتا۔پھر ہم نے ایجادات کے لئے کچھ نہ کچھ بنانا ہی چھوڑ دیا۔ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے۔ہم نے ضرور بنایا او رخوب بنایارجھ کر بنایا۔جو بنایا وہ باتیں ہیں۔بہت باتیں بناتے ہیں ہم لوگ۔