اس سال چند ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے کہا جارہا ہے کہ دنیا جوہری جنگ یا کسی بڑے جوہری سانحے کے خطرناک دور میں داخل ہوگئے ہیں۔روس یوکرین جنگ کا ایک خطرناک پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ روس کے صدر پیوٹن نے کئی بار کبھی واضح اور کبھی اشاروں میں دھمکی دی ہے اگر روس کی سلامتی کو خطرہ ہوا تو وہ تکنیکی جوہری ہتھیار استعمال اور مکمل جنگ شروع کرسکتے ہیں۔اگرچہ امریکی اور برطانوی انٹلیجنس یہ کہہ چکے ہیں کہ پیوٹن کی جانب سے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے امکانات نہیں ہیں مگر یوکرین پلانٹس کے واقعے پر روس یوکرین پر پلانٹس کو نشانہ بنانے جبکہ یوکرین روس پر جعلی حملے کی تیاری کرنے کا الزام لگا تھا جبکہ اس پلانٹ کے قریب گولے تواتر سے گر رہے تھے۔ چند دیگر واقعات اور وجوہات کی بنا پر بھی چند ہفتوں سے اس خیال کو تقویت فراہم ہوئی ہے کہ دنیا جوہری خطرے کے خطرناک دور میں داخل ہو رہی ہے۔پہلا واقعہ یہ ہے کہ پچھلے دنوں یوکرین پر حملے کی پہلی برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں پیوٹن نے دعویٰ کیا کہ مغربی طاقتیں اور نیٹو ہمیں تزویراتی شکست دینا چاہتی ہیں اور ہمارے جوہری مقامات تک جانا چاہتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے روس کی نیو سٹارٹ ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدے میں شمولیت کو باضابطہ طور پر معطل کر دیا۔ واضح رہے اس معاہدے پر 2010 میں امریکی صدر براک اوباما اور روسی صدر دمتری میدویدیف نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کا مقصد سرد جنگ کے دوران بنائے گئے جوہری ہتھیاروں کا امریکی اور روسی ذخیرہ کم کرنا اور بالآخر ختم کرنا تھا۔ دوسری وجہ جزیرہ نما کوریا ہے جو جوہری ٹیکنالوجی کے پھیلا ؤاور استعمال کیلئے فلیش پوائنٹ بن گیا ہے جہاں شمالی کوریا کو دیکھا دیکھی جنوبی کوریا بھی اپنا بم تیار کرنے پر غور کر رہا ہے اور اگر جنوبی کوریا جوہری راستے پر جاتا ہے تو جاپان بھی پیچھے نہیں رہے گا۔روس یوکرین جنگ سے پہلے یوکرین کے چار نیوکلیئر پاور پلانٹس میں کام کرنے والے 15 ری ایکٹر یوکرین کی نصف سے زیادہ بجلی پیدا کرتے تھے۔ جنگ کے دوران یوکرین میں واقع یورپ کا سب سے بڑا جوہری پلانٹ زیفورشیا تباہ ہوتے ہوتے وہ گیا جس کے قریب کئی مرتبہ مارٹر گولے اور میزائل گرے جنہوں نے اس کی بجلی سپلائی لائن منقطع کردی۔ اس کا ٹھنڈک پہنچانے والے نظام جزوی طور پر بند ہوگیا جس سے وہاں موجود مواد پگھلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا مگر جلد اسے بحال کیا گیا اور خطہ تابکاری کی تباہی سے بال بال بچ گیا۔ یہ کمپلیکس کئی بار گولہ باری کی زد میں آچکا ہے اور کسی بھی جانب سے ایک غلط گولہ تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ پچھلے سال کئی دفعہ اس پلانٹ کو درپیش خطرے کے تناظر میں چرنوبل حادثہ کی بازگشت سنائی دی۔ یاد رہے چرنوبل یوکرین کے شمال میں ہے جہاں ہوئی تابکاری کو عام طور پر تاریخ کی بدترین ایٹمی تباہی سمجھا جاتا ہے جس نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا، دیہات خالی کروا دئیے تھے اور یوکرین، بیلاروس اور روسی سرزمین کو زہر آلود کر دیا۔ان وجوہات اور واقعات کے باعث گزشتہ چند ہفتوں سے کہا جا رہا ہے کہ دنیا جوہری خطرے کے خطرناک دور میں داخل ہو رہی ہے اور جوہری خطرے کی سطح بلند ہو گئی ہے۔جوہری ہتھیار سدِ جارحیت ہیں۔ ابھی تک جوہری طاقتوں کے مابین جنگ نہ ہونے کا بنیادی سبب یہی آگہی ہے کہ اس کے نتیجے میں دونوں طرف تباہی ہوگی۔ روس کے بارے میں مغرب کی ہچکچاہٹ اور محتاط رویہ جوہری ہتھیار رکھنے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1990, 2000 اور 2010 کی دہائیوں میں امریکہ نے بوسنیا، عراق اور لیبیا پر نو فلائی زونز قائم کیے کیوں کہ اس طرح کا کوئی خطرہ موجود نہیں تھا لیکن خواہش کے باوجود یوکرین میں نو فلائی زون قائم نہ کیا جاسکا کیوں کہ روس نے اس پر شدید ردعمل اور مکمل جنگ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مکمل جنگ سے اس کا مطلب جوہری ہتھیاروں کا ممکنہ استعمال تھا۔بدقسمتی سے اگر جوہری جنگ شروع ہوئی تو دنیا کی سات ارب آبادی میں سے پانچ ارب سے زیادہ ہلاک ہو سکتی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اب جوہری ہتھیار چھوٹے مگر زیادہ تباہ کن ہیں۔اس لئے عالمی برادری کی یہ اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ کسی بھی تنازعے کو اس درجے پر نہ پہنچایا جائے کہ اس کے نتیجے میں جوہری تصادم کے خطرات پیدا ہوں اس کے مقابلے میں ضروری ہے کہ عالمی برادری جوہری توانائی سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کے لئے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرے اور جوہری ٹیکنالوجی کو پرامن مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔