ہمارا ملک ترقی پزیر ممالک میں شمار ہوتا ہے جس میں بسنے والی ایک بڑی آبادی زندگی کی بنیادی ضروریات کے حصول کیلئے سخت مشقت سے گزر رہی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ بحیثیت قوم صاحب ثروت حضرات اپنے دیگر ہموطنوں کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے اپنا طرز زندگی اس طرح ترتیب دیں کہ اس میں کفایت شعاری کا پہلو غالب رہے اور ساتھ دیگر حاجتمندوں کو ضروریات زندگی بہم پہنچانے میں حکومت کاہاتھ بٹائیں۔ہمیں اس قسم کی معاشی پالیسیوں کو وطن عزیز میں فروغ دے کر لاگو کرنا ہوگا جو ماؤزے تنگ اور ان کے بعدچو این لائی اور ڈینگ جیسے کامریڈز نے چین میں 1949کے عوامی انقلاب کے بعد لاگو کی تھیں اور اپنے ملک کو ترقی اور غریب عوام کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا تھا۔اب کچھ عالمی امور کا ذکر ہ ہو جائے۔ امریکہ یوکر ین کی ہلہ شیری سے بالکل باز نہیں آ رہا۔ اس نے حال ہی میں یوکرین کے واسطے 40کروڑ ڈالرز کا ایک نیا فوجی پیکج منظور کیا ہے۔ چند روز قبل امریکی صدر بائڈن نے خفیہ طور پر یوکرین کا دورہ بھی کیا جس کو آ خری وقت تک میڈیا سے صیغہ راز میں رکھا گیا۔ امریکی وزارت خارجہ نے تاثر تو یہ دیا کہ صدر بائڈن پولینڈ کے دورے پر جا رہے ہیں پر اندرون خانہ اس بیان کی آ ڑ میں ان کا دورہ یوکرائن ترتیب دے دیا گیا۔ قارئین کو یادہوگا کہ1970کے اوائل میں اس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ہینری کسنجر نے بھی چین کا خفیہ دورہ کیا تھا پاکستان کے دورے کے دوران میڈیا کو تاثر تو یہ دیا۔ گیا کہ وہ کوہ مری میں آرام کر رہے ہیں کہ ان کی طبیعت ناساز ہے پر پس پردہ وہ بیجنگ کا چکر لگا آئے جو پھر چین اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس دورے سے پہلے چینی اور امریکی قیادت کے درمیان کشیدگی کا یہ عالم تھا کہ ان کے درمیان بات چیت تک بھی بند تھی۔یاد رہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات
خوشگوار بنانے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا تھا کیونکہ پاکستان اور چین کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات تھے جن کا امریکہ نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرنے کیلئے بھرپور فائدہ اٹھایا۔بائڈن کے مندرجہ بالا دورہ یوکرین نے روسی صدر پیوٹن کے اس الزام کو تقویت دی ہے کہ یوکرین کا قضیہ اس لئے طول پکڑ گیا ہے کہ امریکہ یوکرین کو روس کے خلاف جنگ میں تھپکی دے رہا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان موجود کشیدگی میں پینٹا گون کے اس بیان کی وجہ سے اضافہ ہواہے کہ امریکی بندرگاہوں پر چینی کرینوں میں جاسوسی کے آ لات ہیں۔ چین نے اس الزام کو تجارتی تعلقات روکنے کی بیوقوفانہ کوشش قرار دیاہے۔اس وقت عالمی تجارت میں چین کا پلڑا بھاری ہے اور امریکہ سمیت دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ باہمی تجارت میں چین فائدے میں ہے جس سے امریکہ خوش نہیں اور وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح چین کو اقتصادی طور پر کمزور کیا جائے، اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے عالمی تجارت سے آؤٹ کیا جائے۔ تاہم یہ کوئی آسان کام نہیں۔ چین نے جو مقام اس وقت حاصل کیا ہے وہ ایک بھرپور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ چین نے افریقہ، ایشیاء اور یورپ میں تجارت کے ذریعے جو طاقت اور اثر رسوخ میں اضافہ کیا ہے وہ راتوں رات نہیں ہوا بلکہ یہ چینی قیادت کی دور اندیشی تھی کہ جس نے مستقبل کو مد نظر رکھتے
ہوئے معاشی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا۔چین کی معاشی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ اس کی قیادت نے کاروبار میں نجی شعبے کی بھی حوصلہ افزائی اور مدد کی ہے۔ بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ چین نے مغرب میں رائج سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی ان پالیسیوں سے بھی استفادہ کیا ہے کہ جو عام آدمی کے مفاد میں ممدو معاون ثابت ہوئی ہیں بالفاظ دیگر آپ چینی معیشت کو کسی حد تک ایک مکسڈ اکانومی mixed economyبھی قرار دے سکتے ہیں کسی زمانے میں اس قسم کی مکسڈ اکانومی کا تجربہ سابقہ یوگو سلاویہ میں اس کے وقت کے سربراہ مارشل ٹیٹو نے بھی کیا تھا جو وہاں کے عام آدمی کے حق میں بڑا کامیاب ثابت ہوا تھا۔ چین کے ایک سابق سربراہ ڈینگ اس چیز کے قائل تھے کہ معاشی معاملات میں انا پرستی نقصان دہ ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر capitalismکیپیٹلزم کے ان پہلوؤں کو بھی چینی معیشت کا حصہ بنا دیا جائے کہ جن سے ویسٹرن ممالک کے عام آ دمی کا بھلا ہوا ہے۔یہ محاورہ یوں ہی تو نہیں بنا کہ اتنے پاؤں پھیلا کہ جتنی چادر کا سائز ہو۔ یہ درست ہے کہ ہر فرد کو گھر بھی چاہئے اور سفر کیلے ٹرانسپورٹ بھی،پر کیا سادہ قسم کے تھوڑی قیمت پر تعمیر ہونے والے گھروں کو رواج نہیں دیا جاسکتا اور کیا توانائی پر کثیر خرچہ کم کرنے کے لئے شہروں کے اندر سرکلر ٹرین کا نظام وضع نہیں کیا جاسکتا، ہمارے ہاں ایک طرف بنیادی ضروریات سے محرومی کی جھلک ہے تو دوسری طرف آج کل تو ہر بنگلے میں ایک سے زائد کاریں کھڑی دکھائی دیتی ہیں ان کو چلانے کیلئے پٹرول یا ڈیزل خریدنے پر جو خرچہ اٹھتا ہے کیا کسی نے اس کا اندازہ لگایاہے۔برطانیہ کی ملکہ اور بادشاہ اور وزیر اعظم بشمول وزرا ء اور پارلیمنٹ کے ارکان سرکلر ٹرین میں سفر کرتے ہیں اور درمیانے درجے کے گھروں میں رہتے ہیں۔