کیا یہ میری آواز ہے؟

اپنی تصویر تو کیا بعض کو اپنی آواز بھی پسند نہیں ہوتی۔ہر چند اس کی آواز دوسروں کو بہت بھلی لگتی ہو۔ اس کو دوسروں کی طرف سے اس کی آواز کی پسندیدگی پر حیرانی ہوگی۔ مگر یہ ملکہ تو قدرت کی جانب سے ودیعت ہوتا ہے۔کسی کو حسن و صورت کسی کو کیا اور کسی کو آواز کی خوبصورتی عطا ہوئی ہوتی ہے۔کیا کہا فراز نے ”سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔ یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں“۔ ہم تو اپنی تصویر کا ذکر لے بیٹھے تھے او راپنی مووی تک کو رد کردیا تھا کہ اس میں اپنی جسمانی رعنائی حسن و خوبی تو کیا رعنائی خیال تک موجود نہیں۔اپنی ہی مووی آنکھوں میں نہیں جچتی کہ اس میں اپنے بڑھاپے کے شواہد ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔کیونکہ ابھی ہم نہ تو بوڑھا ہونا چاہتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو کہلوانا پسند کریں گے۔پھر اپنی تصویر سے متفق ہونا بھی ہمارے لئے کوہِ گراں ہے۔ایسے میں اگر اپنی آواز سن لیں تو جھٹ سے ٹی وی بند کرنا پڑجاتا ہے۔سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ارے کیا یہ میری آواز ہے۔کیونکہ آئینہ جہاں ہمارے بارے میں سچ بولنے لگے وہاں بھلاہمارا اپنا ٹی وی پروگرام ہم کیوں دیکھیں گے۔خود مجھے ضیاء محی الدین کی آواز بہت پسند ہے۔ اس کی آواز میں کوئی مجھے برا بھلا کہے تو اچھا لگے۔مگر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی آواز کی پسندیدگی پر خود پبلک پر حیران ہو تے ہوں۔ مگر یہ تو قدرت کا انعام ہوگا کہ کسی انسان میں وہ خوبی ڈال دے جس بارے میں اس آدمی کو خود معلوم نہ ہو۔پھر وہ لوگوں کی داد و تحسین پر حیران ہو کہ مجھ میں کیا رکھا ہے جو لوگ میرے لب و لہجے کو شیریں گفتار کہتے ہیں۔مگر شاید مرحوم کو اپنی زندگی میں اپنی آواز پسند نہ رہی ہو۔مشتاق احمد یوسفی تک ان کی بہت تعریف کرتے تھے۔ایسے بھی ہیں جن کو اپنی آواز بہت پسند ہوتی ہے اور کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتے۔پھراپنی ہی آواز پسند ہوتی ہے۔خوب گانے گاتے ہیں اور کمرے کے فرش پر بیٹھ کر اپنے آگے گاؤ تکیہ رکھ کر ٹی وی کا خبرنامہ پریکٹس کے طور پر پڑھتے ہیں۔لیکن ٹی وی کی ملازمت تو حاصل نہیں کر سکتے پھر تھوڑی عمر زیادہ ہو جائے توگلا بھاری ہو جاتا ہے۔پھر شوخ وچنچل آواز ان کے بھاری بھرکم جسم کے پیچھے ان کے گلے ہی میں کہیں چھپ جاتی ہے۔کبھی ہمیں بھی اپنی شکل و صورت بھلی لگتی تھی او رکبھی اپنی آواز کو خودریکارڈ کر کے سنتے تھے۔ شاید ٹی وی میں خبرکار کی نوکری حاصل کرنا چاہتے ہوں۔مگر جب مدت گزری تو زیادہ وزن کی وجہ سے اپنا وجود بوجھ لگنے لگا۔ اس وقت اندازہ ہوا کہ کہیں یہ بھاں بھاں کرنا ہمارے کردار پر بھی اثر انداز نہ ہو۔ سو گھر کے اندر یہ صداکاری چھوڑ دی۔خوب گانے گائے ہیں مگر سولو ٹائپ کے اور باتھ روم سنگر کے طور پر اپنی آپ دنیا میں مشہور ہوئے جہاں ہمارے علاوہ کوئی دوسرا بندہ نہیں رہتا۔کبھی کسی کی آواز کے ساتھ محبت ہو جائے تو آدمی اس آواز کے مالک کو دیکھنا چاہتا ہے۔میں ریڈیو اسلام آباد سے بہت پروگرام سنتا تھا۔ وہاں آواز کا ایسا جادو ہوتا تھا کہ جی چاہتا پر لگ جائیں اورمیں اڑ کر ان کے پاس پہنچ کر ان کا چہرہ دیکھوں۔ مگر جب ٹی وی کو رواج ملا تو وہی صدا کار کہیں اداکار کی حیثیت سے ٹی وی کے پروگراموں میں اینکر پرسن کے طور پر آنے لگے۔پھر لگا کہ جیسی آواز ہے ویسی ان کی تصویر نہیں ہے۔اس پر ہمیں اندازہ ہوا کہ آواز بھی خوب دھوکا دے جاتی ہے۔اب ٹیلی فون پر ابھرنے والی بعض آوازیں بہت بھلی محسوس ہوتی ہیں۔مگر کبھی توایسا ہوتا ہے کہ آواز والے کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ خوشی نہیں ہوتی جس کی ہمیں توقع ہوتی ہے۔پھر انسان پشیمان ہو جاتا ہے کہ اتنے تعلقات ہی کیوں بڑھائے تھے جو اب یہ نباہ توڑنے اور چھوڑنے پر آمادہ ہو رہے ہو۔خوبصورتی ہے نا۔ حسن وخوبی کا ایک حوالہ تو نہیں کہ اس کو محدود کردیا جائے۔ہر کسی میں ہر خوبصورتی تو نہیں ہوتی۔ کسی میں کیا اور کسی میں کیا خوبصورت ہوتا ہے۔جس کے بارے میں اس کو خود معلوم نہیں ہوتا۔جس کا پتا اس کو لوگوں کی پے درپے تعریفوں سے ملتا ہے۔نرگس کے پھول کو بھلا کیا معلوم کہ وہ خوبصورت ہے۔وہ آئینہ کیسے دیکھے گا۔کیونکہ اس کی شکل ہر چند کہ آنکھ سے مشابہہ ہے مگر اس آنکھ میں بینائی کہاں ہوتی ہے۔یہ تو چمن میں کوئی دیدہ ور کوئی دیکھنے والا آتا ہے اور نرگس کے قریب کھڑے ہو کر کہتا ہے واہ نرگس کا پھول کتنا حسین ہے۔اسی آواز سے نرگس کو اپنی خوبصورتی کا احساس ہوتا ہے۔