آزمائش:مثبت نتائج

سماجی و اقتصادی پس منظر سے قطع نظر ہر کوئی ایسی بھرپور زندگی بسر کرنے کی خواہش رکھتا ہے جو اس کے خیالات اور خواہشات سے ہم آہنگ ہو۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اُس کی کاوشیں سراہی جائیں‘ انفرادیت کو تسلیم کیا جائے اور اُس کی تعریف کی جائے‘ دنیا امنگوں‘ کوششوں اور نتائج کے درمیان تقسیم ہے جن کا ہر ایک مرحلہ مشکلات سے بھرا ہے۔ انسان کو زندگی کی مشکلات سے فطری ناپسندیدگی ہوتی ہے اور ان سے بچنے کی کوششیں اور تیاری رکھتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مشکلات کے لمحات میں لوگوں کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ آزمائش کے مثبت نتائج بھی ہوتے ہیں۔ زندگی کے اِس پُرپیچ راستے میں کسی انسان کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو حالات کی لہروں سے دور ہو کر بے معنی پانیوں میں غوطہ زن رہے یا پھر شعوری زندگی کا ایک آزاد راستہ اختیار کر کے حالات کے چیلنج کو قبول کرے۔ زندگی کا ہر تجربہ مشکلات کے ساتھ خوشگوار ہو سکتا ہے اگر اُسے ویژن‘ سمت اور ٹھوس عملی کوششوں سے رہنمائی  ملے‘  یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ کامیابی ایسی کوئی بھی چیز نہیں جو ہمیں پلیٹ میں رکھ کر پیش کی جائے جبکہ اس کے بجائے صبر و استقامت کے ساتھ ہمارے راستے میں آنے والا آزمائشی وقت زیادہ تر صورتوں میں عظمت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ مشکلات کا سامنا کرنے سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ جب مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو ہم سوچتے ہیں اور اپنے خیالات اور حکمت عملی پر نظر ثانی کرتے ہیں اور اپنی طاقت و کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں‘ اس طرح‘ مشکلات ہمیں کامیابی کے قریب لاتی ہیں اور ہمیں نئے طریقے سیکھنے اور پرانے طریقوں کو سیکھنے میں مدد کرتی ہیں‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مشکلات ذاتی ترقی کی 
کلید ہوتی ہیں۔ یہ ہماری حدود اور ہماری طے شدہ ذہنیت کو چیلنج کرتی ہیں اور سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہیں۔ یہ ہمیں اس چیز سے بھی تبدیل کرتی ہیں جو زندگی کے بارے میں جو کچھ سمجھتے ہیں یہ اُس کے نئے پہلو ظاہر کرتی ہے اور ہمیں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل بھی بناتی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ مصائب و مشکلات انفرادی عظمت کی مظہر ہوتے ہیں جو بنا صبر و استقامت حاصل نہیں ہوتے اِسی لئے وقت و تاریخ میں اپنے نشانات چھوڑ جاتے ہیں۔  چوتھی بات یہ ہے کہ چیلنجز اور مشکلات طاقتور قوتیں ہیں جو انسانوں کو ان کے بہترین ممکنہ ردعمل کو تشکیل دینے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ طاقتوں کی شناخت‘ فطری صلاحیتوں کو سمجھنے اور زیادہ سے زیادہ پیداواری صلاحیت و کامیابی کو ممکن بنانے میں معاونت کرتی ہیں۔ اگر ابتدائی انسانوں نے مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان سے گریز کیا ہوتا تو دنیا اس حد تک ترقی نہ کرتی‘ پانچویں بات یہ ہے کہ مشکلات میں ایک طرح کی لچک بھی پائی جاتی ہے۔ جب کوئی شخص مشکل کا سامنا کرتا ہے تو اُس پر قابو پانے کی صورت ہر مرحلے پر اُس کے اعتماد و عزم اور ارادے میں تجربے کی صورت اضافہ ہوتا ہے‘ بار 
بار کی مشکلات بار بار کی کامیابیاں لاتی ہے جو کامیاب زندگی کا باعث ہوتی ہے۔چھٹی بات یہ ہے کہ مشکلات غیر ضروری خیالات‘ لوگوں اور منصوبوں سے نجات دلاتی ہے۔ کسی مشکل کی صورت میں انسان سب سے زیادہ اپنے حالات پر توجہ دیتا ہے اور یہی مشکل اُس کے سماجی تعلقات کے مستقبل کی سمت کا تعین بھی کرتی ہے اگرچہ یہ انتخاب ہمیشہ درست ثابت نہیں ہوتا‘ مشکلات کے دوران خیالات اور عقائد و یقین کی عملیت اور پیداواری صلاحیت واضح ہونے سے فکروعمل کا ابہام دور ہوتا ہے۔ ساتویں بات یہ ہے کہ کسی بھی مشکل میں خود انحصاری کا احساس نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے ہم اپنے بارے میں لوگوں کے روئیے دیکھتے ہیں‘ ہم دوسروں کی بجائے خود پر انحصار کرنے لگتے ہیں اور یہی کامیابی کی اصل کلید ہے‘ انسان جو مال و متاع‘ جو طاقت یا وسائل جمع کرتا ہے درحقیقت اُن کے ساتھ اسباق بھی ہوتے ہیں اور اِنہی اسباق کی رہنمائی ہمیں خود کفیل بناتی ہے جو ہماری منفرد انفرادی شناخت و تشخص کا اظہار ہوتا ہے‘ آٹھویں بات یہ ہے کہ مصیبتیں انسانی معاشرے کو زیادہ مضبوط بناتی ہیں کیونکہ اِن کی وجہ سے ایک دوسرے کیلئے ہمدردی پیدا ہوتی ہے جیسے جیسے زندگی میں مشکلات کا سفر طے ہوتا ہے دوسروں کی مشکلات کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے  ہمدردی کے جذبات اور قول و فعل سے ہمدردی کا اظہار انسانی زندگی کا سرمایہ ہے‘ معاشی مشکلات کے جاری دور میں اپنے گردوپیش میں دوسروں کی مشکلات کا احساس کریں‘ دوسروں کی مشکلات بھی ہمیں سادگی‘ انسانیت‘ بصیرت اور عاجزی کے اظہار کا مؤجب بنا سکتی ہیں اور اِس سے حقیقی معنوں میں انسانی معاشرہ تشکیل پائے گا۔