کرم تنگی ڈیم، کثیر المقاصد منصوبہ

خوش قسمت ہوتے ہیں اس انتخابی حلقے کے باسی کہ جن کے اراکین اسمبلی اپنے دور اقتدار میں ان کے واسطے ایسے ترقیاتی منصوبے تشکیل دیتے ہیں جو خواص دوست کی بجائے عوام دوست ہوتے ہیں۔ضلع لکی مروت کی قسمت اچھی ہے کہ اسے چند ایسی سیاسی شخصیات نصیب ہوئی ہیں کہ جنہوں نے اس ضلع کو پسماندگی کی دلدل سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیاہے۔اسے سب سے پہلے ایک علیحدہ ضلع کا درجہ دلوایا گیا۔لکی مروت کے ضلع میں عوامی فلاح اور بہبود کے زیادہ تر ترقیاتی کاموں کے پیچھے سیف اللہ فیملی سے تعلق رکھنے والے تین برادران ہیں کہ جو سیاسی حلقوں میں سیف اللہ براداران کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، لکی کے لق و دق صحرا کو سر سبز بنانے اور اس ضلع کے غریب باسیوں کو شفاف پینے کے پانی کی فراہمی میں اس سیاسی خاندان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ذیل کی سطور میں ہم ان ترقیاتی منصوبوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے کہ جن کی تکمیل کے بعد آج لکی کا نقشہ ہی بدل رہا ہے۔ کرم تنگی ڈیم منصوبہ ایک لمبے عرصے تک سرخ فیتے کا شکار رہا۔ اگر سیف اللہ براداران متحرک نہ ہوتے تو کرم تنگی ڈیم کے منصوبے پر کام کبھی بھی شروع نہ ہوتا۔ آج ان کی کاوش سے کرم تنگی ڈیم کا منصوبہ تکمیل کی طرف رواں دواں ہے۔ اس کے مکمل ہو جانے کے بعد نہ صرف لکی مروت بلکہ ملحقہ بنوچی خٹک اور بھٹنی اقوام کے علاقے میں واقع تین لاکھ باسٹھ ہزار ایکڑ بنجر زمین گندم کی شکل میں سونا اُگلنا شروع کر دے گی۔ جس سے مقامی آبادی کی معاشی حالت میں زبردست تبدیلی آ ئے گی اس کے علاوہ اس ڈیم سے84 میگا واٹ بجلی بھی پیداہو گی اس میں کوئی شک نہیں کہ کرم تنگی ڈیم کے منصوبے کو متحرک کرنے میں سیف اللہ برادران کا بہت بڑا کردارہے۔ لکی سٹی کے واسطے گرڈ سٹیشن کا قیام بھی سیف اللہ براداران کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ لکی سٹی اور ملحقہ علاقوں کے واسطے 133 kV  کا ایک علیحدہ گرڈ سٹیشن منظور ہوا۔ جس سے ان علاقوں میں بسنے والی ایک بڑی آ بادی بجلی سے استفادہ کر رہی ہے۔ لکی میں پولی ٹیکنیک کالج کی تعمیر بھی ان منصوبوں میں سے ہے جن سے علاقے میں تعمیر و ترقی کا سفر تیز ہوا ہے خاص کر تعلیم کے شعبے میں اس ادارے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘ انتخابی حلقے PK 76 کے 36 دیہات جو 1947 سے لے کر 2004 تک بجلی سے محروم تھے آج بجلی کی سہولت سے استفادہ کر رہے ہیں اور یہ علاقہ دیگر ترقیافتہ علاقوں کے ہم پلہ ہو گیا ہے۔لکی مروت کے علاقے میں سیف اللہ فیملی کی کوششوں سے گزشتہ دس پندرہ برسوں میں لاتعداد پرائمری سکولوں کو کھولا گیا ہے اور درجنوں کے حساب سے پرائمری سکولوں کو اپ گریڈ بھی کیا گیا ہے۔ جس سے یہاں پر تعلیم کی سہولت عام ہو گئی ہے اور یقینا تعلیم ہی وہ بنیاد ہے جس پر کسی علاقے کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار ہوتا ہے اور بھی بہت سے منصوبے ہیں جن سے اس علاقے میں تعمیر تو ترقی کا سفر تیز ہواہے جن کا تذکرہ اس مختصر کالم میں ممکن نہیں۔تاہم اتنا ضرور تذکرہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر عوامی نمائندے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہوں تو علاقے کی تعمیر و ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے اور عوام ایسے عوامی نمائندوں کی خدمات کا اعتراف ان کو بار بار ووٹ دینے کی صورت میں کرتے رہتے ہیں۔