حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے 

ہم بھی لڑکپن میں دو دو سیڑھیاں پھلانگ کر آن واحد میں اوپر گھر کی تیسری منزل تک پہنچ جاتے تھے۔مگر اب تو ہر سیڑھی پر دو دو پاؤں رکھ کر اوپر اٹھتے ہیں۔اوپر آوازہ ہوجاتا ہے کہ بابا جانی گلی سے گھر میں داخل ہو کر اوپر روانہ ہو چکے ہیں۔ اب کس وقت پہنچتے ہیں یہ ان کو معلوم نہیں ہوتا۔کیونکہ ہم دروازے کی گھنٹی بجا کر جو اندر داخل ہوئے ہیں۔جہاں بیٹھ گئے تو اٹھ نہیں سکتے اٹھ گئے تو بیٹھ نہیں سکتے۔دوسرے کا ہاتھ تھام کر اٹھائے جاتے ہیں۔ کچھ تو اس میں عمریا کا قصور ہے اور کچھ خود بھی قصور وار ہیں۔بعض کے اعصاب وقت سے پہلے سُست پڑ جاتے ہیں۔اس لئے کہ وہ کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اگر بندہ چلتا پھرتا رہے تو اپنی ٹانگوں کے بل بوتے پر گھومتا پھرتا رہے گا۔پھر اگر بیٹھنا شروع کر دے تو جلد ہی اس کو اٹھنے بیٹھنے کے لئے سہارے کی تلاش ہوجاتی ہے۔ ہماری طرح کسی کو ہاتھ دے کر اٹھنا پڑتا ہے۔ہماری مثال کہ ”اور ہوں گے تیری محفل سے ابھرنے والے۔حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے“۔پھر عمر کی برف پگھلنا شروع ہو تو بندہ اس تبدیلی کے سامنے ٹھہر بھی تو نہیں سکتا۔ہماری عمر کے بہت سے دوست بھائی ہیں جو اسی طرح دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر اٹھتے
 ہیں اور بیٹھتے ہوئے خود کو توشک یا گدے اور صوفہ پر گرا کر بیٹھتے ہیں۔ایک دوست فرما رہے تھے کہ بوڑھے ہونے کی پہلی نشانی ہے کہ بندہ اٹھے تو زمین پر دونوں ہاتھ رکھ کر اٹھے۔مگر ہم نے کہا یہ نشانی تو عمر کے زیادہ ہونے کے ساتھ وزن کے زیادہ ہوجانے پر بھی ظاہر ہوتی ہے خواہ ایج جتنی ہو۔مگر اس وقت بندہ بہت عاجز مسکین اور قابلِ رحم ہوتا ہے جب جوانی نہ رہے اور زور نہ ہو زر بھی نہ ہو۔جب وزن بھی زیادہ اور عمر بھی زیادہ ہو تو معاملہ بہت خراب ہو جاتا ہے۔اس انتہا کو پہنچ جانے والے پھر ورزش کی طرف مائل ہوتے ہیں او رکسی طرح وزن کم کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔خواہ دوا سے ہو یا ورزش سے یا خوراک کم کرنے سے ہو۔مگر دو قدم لو تو سانس پھول جاتی ہے۔فرماتے ہیں کہ ہم تو ورزش کرنے کو تیار ہیں مگر سینے میں دم جو نہیں۔ان کی بات اپنی جگہ درست ہے۔اصل میں سٹیمنا جس کانام ہے وہ ہوتا نہیں بنانا پڑتا ہے۔تھوڑا تھوڑا روز چلنے اورآہستہ آہستہ اس دورانیہ کو بڑھانے سے سٹیمنا یا برداشت کہہ لیں زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ہمارے بھائی بند ہیں جو اونچے فشارِ خون کے مریض ہیں او رساتھ عمر بھی زیادہ ہے۔مگر ”دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن“ وہ جوانی کی یاد میں بیٹھے تو بیٹھے ہی رہ جاتے ہیں۔وزن بھی زیادہ ہو اور ساتھ سانس بھی پھولتی ہو اور عمر کی نقدی بھی کافی لُٹ چکی ہو۔پھر اس پر وہ اگر پیدل چلنا شروع کریں تو ان کے گھٹنوں اور گٹوں میں سے چٹاخ پٹاخ کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ان کے گوڈے ان کو زیادہ دور جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ہم بھی تو بائیک کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب پٹرول کی گرانی کے سبب جو پیدل جاتے ہیں تو اول سوچتے ہیں کہ یہ پیدل کیسے چلا جاتا ہے۔دوسرے پیدل جانے والوں کو دیکھتے ہیں کیسے قدم اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ زمین پر پاؤں کیسے رکھتے ہیں ہمیں بھول چکا ہو تا ہے۔پاؤں کی ہڈیاں زمین پر یوں چھبتی ہیں کہ جیسے ہم نے ان دونوں ہڈیوں کو بیساکھیاں بنایا اور ان
 پر جسم کا وزن منتقل کر کے چل رہے ہیں۔بیٹھ گئے تو بیٹھ جائیں گے  لہٰذا چلتے پھرتے کام کاج کرتے گھر میں یہاں وہاں کسی نہ کسی بہانے سے گھومنا بہتر ہے۔بیٹھ گئے تو کھانا پڑتا ہے اور بلاوجہ بھی نوشِ جاں کرنا پڑتا ہے اور پھر ضرورت سے زائد بھی تناول کر لیتے ہیں۔اس سے وزن بڑھ جائے گا۔‘زندگی میں چاک و چوبند رہنا بہت ضروری ہے۔سستی تو انسان کی فطرت میں شامل ہے مگر اس کے کارن بہت سے روزانہ کرنے کے کام یونہی سر کھاتے رہ جاتے ہیں۔روز کے پینڈنگ کاموں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔پھر ایک بنڈل ایک گٹھا سا بن جاتا ہے۔بندہ اس پلندے کو لے کر بیٹھا رہ جاتا ہے۔پھر جو دو ایک کام ضروری کرنے کے ہوتے ہیں وہ بھی سر کھا جاتے ہیں۔ہمیں بہتوں نے مشوروں سے نوازا ہے۔کہتے ہیں واک کرو۔ ہم جواب دیتے ہیں ہم تو بائیک پر روزانہ واک کرتے ہیں۔ مگر آج کل کم کم ہے۔کیونکہ اس طرح کے واک کرنے پر پٹرول بھی تو اضافی خرچ ہو جا تا ہے۔ایسی صورتِ حال میں اپنا کام خود کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔صاحب لوگ دفاتر میں دوسروں سے کام کروانے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ گھر آ کر بھی وہ خود کام نہیں کرتے۔