رستہ چو رستہ گلی گلیار

ایسے لگتا ہے پورے شہر میں کچھ لوگ کھدائی کر کے خزانوں کی تلاش میں ہیں۔خزانہ تو نہیں مل رہا۔ اس پر عبث مٹیاں ڈھیلے اور پتھر ہاتھ تلے آرہے ہیں۔یہ اہلکار قدیم آثار کے نہیں بلکہ محکمہ سے ہٹ کر کھدائی کا یہ کام عام لوگوں نے ہاتھوں میں سنبھال رکھا ہے۔مطلب کہنے کا یہ ہوا کہ شہر میں جگہ جگہ شہریوں نے اس شہر کو جو انھیں سنبھالے ہے کھدالوں سے زخم زخم کر دیا ہے۔ہر رستہ چو رستہ گلی گلیار کوچہ و محلہ ان کے ہاتھوں گویا مسمار ہوا جاتا ہے۔وہ کون سی گلی ہے کون سا محلہ ہے جہاں کھڈے ڈھلوان مٹی کے ٹیلے سپیڈ بریکر ٹوٹی ہوئی نالیاں نہ ہوں۔ جہاں بارش کا پانی کھڑا نہ رہ جاتا ہو۔ہر سُو ان شہریوں کے ہاتھوں شہر کے اجاڑ کر دینے کے بندوبست ہیں۔گاڑی میں ہوں تو کسی جگہ سکون کی راہ نہیں ملتی۔ہر جگہ اوپر نیچے تہہ وبالا ہے۔لگتا ہے سڑک نیچے ہے اور ہم اچھل اچھل کرسڑک سے ایک فٹ اوپر جارہے ہیں۔گلیوں میں شہریوں کو اپنے منصب کااحساس نہیں۔بس اپنے آپ کو دیکھتے ہیں ہمارا الو سیدھا ہوجائے ہم چین کی بانسریا بجائیں دوسرا  جانے اور اس کا کام جانے۔تنگ سی گلی میں گھروں کی تعمیر جاری ہے۔ گھر بن کر تیار ہو رہے ہیں۔گلی ہی میں اپنے دروازے کی باہر والی تھلی کو آگے پھیلا دیا ہے۔یہ تجاوزات کا قدم ان کو نظر ہی نہیں آتا۔وہ نیچے دیکھنے کے توعادی نہیں ہیں۔بس فخر ہے اور اس پر کہ ہم ایک گھر کے مالک بن گئے۔آپ دس گھروں کے مالک ہوں دعا ہے مگر کچھ دوا بھی تو کریں۔گھر بنا سکنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ سرکاری زمین کو بھی ہڑپ کرنے بری نیت اختیار کر لیں۔جو مرکزی شاہراہیں ہیں ان کو چھوڑ دیں۔مگر شہر کے اندرون اور بیرون جہاں رہائشی بستیاں اورکالونیاں ہیں وہاں اتنا حال برا ہے کہ تنگ گلی پانچ فٹ کی ہو اس میں چھ گز کے فاصلے پر سات  سپیڈ بریکر ہیں۔وہاں کی لوکیش ملاحظہ کریں تو ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ بھلا یہاں تو کوئی چار پہیوں کی گاڑی بھی اندر گلی میں نہیں جا سکتی ہے وہاں یہ بہتات سے بنائے گئے سپیڈ بریکر اپنے اندر کیا مقاصد پوشیدہ رکھتے ہیں۔پھر ان رکاوٹوں کے علاوہ اگر آر پار نالیاں ہیں تو وہ بھی کناروں سے ٹوٹی ہیں اور پھر بڑی بڑی ہیں اتنی کہ اس پر سے موٹر سائیکل کے دو پایے گزارنے محال ہو جاتے ہیں۔کہیں دو رہائشی بستیوں کو ملانے کے لئے سیمنٹ کے بلاک رکھ کر گندے نالے کے اوپر ایک پُل نہیں بلکہ پل سا بنا دیا گیا ہے۔اس طرح کہ جس پر ایک موٹر سائیکل ہی بہ امن و امان گزر جائے تو سمجھو بڑا کام ہے۔پل کے ختم ہوتے ہی مٹی کے ڈھلوان اور ٹیلے منہ چڑاتے ہیں۔یعنی اگر پل کے اوپر سے نیچے گندے نالے میں نہ گرے تو پل کراس کرتے ہی ان آڑھے ترچھے ٹیلوں پر سے ناہموار قدم اٹھاتے یا بائیک کے ٹائر کے اچانک مڑ جانے سے بندہ لڑھک کر زمین بوس ہو سکتا ہے۔ہر گھر والے نے اپنی حفاظت کی خاطر معلوم نہیں کاہے کی حفاظت ہے مگر دروازے کے آگے سپیڈ بریکر بنا رکھا ہے۔حالانکہ سو گز کے فاصلے پر اگر ایک سییڈ بریکر ہو تو چلو نہ سہی مگر پھر بھی قابلِ قبول ہے مگر یہاں تو لگتا ہے کہ یہ نگر سپیڈ بریکروں کا ہے کہ جگہ جگہ رکاوٹ کا سامنا ہے۔اتنا کہ آدمی کا تو ناک میں دم ہو جاتا ہے۔ہمارا تو دل لرزتا ہے کہ جب ہم نے اہلِ خانہ سمیت گھر میں سے ان دو پایوں کے سہارے برآمدہونا ہو۔اکیلے ہو تو چلو کہیں ٹھوکریں کھاتے نکل ہی جاتے ہیں۔مگر بھاری بھرکم یہ ہوائی گھوڑا اس وقت ہوائی جہاز کا روپ دھار چکا ہے۔پھر یوں لگتا ہے کہ یہاں جہاز اُڑ نہیں رہا بلکہ اس کو ہم نے بہ حیثیت پائیلٹ اپنے کاندھے پر اٹھا رکھا ہو۔کسی گھر میں اندر فرشوں پر ماربل او رچپس لگا کر وہاں رگڑائی کا کام ہورہا ہوتا ہے۔کہیں تو پانی کا استعمال نہیں کرتے اور وہ دھول اڑاتے ہیں کہ بھلا چنگا گزرنے والا آدمی ناک کے راستے بُورے کی اس دھول کو چاٹ کر دمہ کا تیار مریض بن جائے۔ پھر اگر جو پہلے سے مریض ہیں ان کا کیا حال ہوگا۔ پھر جہاں رگڑائی میں دھول مٹی کو بٹھانے کے لئے اگر پانی بھی ساتھ شامل ہو تو اس کا گندا پانی اندر گھر کے صحن سے نکل کر گلی میں سامنے کنارے کی بڑی نالی میں گرانے کوخود رکھی ہوئی اینٹوں کی ایک نالی سے ہوکر گزرے تو وہاں راہ گزرنے والے کے سامنے ایک دیوار سی حائل ہوجانے کا احساس ہوتا ہے۔اپنے گھر کو سنوار لیتے ہیں مگر باہر جو گند گرایا ہوتا ہے اس کو صاف نہ کرنے کی وجہ سے وہ ملبہ خود ان کے گھر کے باہر پڑے راستے کا حصہ بن جاتا ہے۔اب جو رکشہ گزرے وہ الٹ سکتا ہے اور سوزوکی پک اپ گزرے توپلٹ سکتی ہے۔پھر حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کو کسی لمحہ بھی اندر اندر یہ قصور چٹکیاں نہیں کاٹتا کہ ہم کس شہر کو تاخت و تاراج کر رہے ہیں اور کس طرح کر رہے ہیں۔