عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نامی تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد 190 ہے ”مگر“ ہر ملک کا ووٹ (رائے) دوسرے ملک کے برابر نہیں۔ ہر ملک کے ووٹ کا وزن اس ملک کی بہتر معیشت سے لگایا جاتا ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ میں چند مغربی ملکوں جیسا کہ امریکہ‘ مغربی یورپ (یورپی یونین) کے پاس اکثریتی ووٹنگ کا حق ہے۔ اسی لئے امریکہ اور یورپ کی جانب سے آئی ایم ایف کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے۔ یورپ اور جی سیون ملکوں کے پاس آئی ایم ایف کے پچاس فیصد ووٹنگ کے حقوق ہیں جبکہ اوسط اور کم آمدنی والے ملک جو کہ دنیا کی آبادی کا پچاسی فیصد ہیں‘ ان کے پاس اقلیتی ووٹنگ کے حقوق ہیں یعنی ’آئی ایم ایف‘ کو غیر جمہوری ادارے کے طور پر قائم کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد یورپی اور امریکی بالادستی کو قائم رکھنا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں ’آئی ایم ایف‘ کے متعدد پروگرام لئے ہیں جن میں سے صرف دو پروگرام ہی مکمل ہوسکے ہیں۔ ایک پروگرام پرویز مشرف کے دور میں دیا گیا جو کہ ’آئی ایم ایف‘ کی روایات سے ہٹ کر تخفیف غربت کا پروگرام تھا۔ دوسرا پروگرام مسلم لیگ (نواز) کی حکومت کے دور میں مکمل ہوا۔ اس پروگرام میں آئی ایم ایف نے سولہ اہداف پورے نہ کرنے کے باوجود پاکستان کو رعایت دی اور آئی ایم ایف کے بورڈ اور عملے نے متعدد اصلاحات نہ ہونے کے باوجود نہ صرف پورا قرض فراہم کیا بلکہ اچھی معیشت کی تعریف بھی کی کیونکہ آئی ایم ایف کے کرتا دھرتا کو پاکستان کی ضرورت تھی جبکہ اِس وقت خطے میں خصوصاً افغانستان سے امریکی افواج کے انخلأ کے بعد مغربی طاقتوں کو کسی قسم کی سیاسی مداخلت یا فوج کشی کی ضرورت مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس لئے فنڈ کا رویہ بھی سخت سے سخت تر ہوتا جارہا ہے یعنی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آئی ایم ایف ایک پروفیشنل اور حقیقی معیشت کی بحالی کے ادارے کے بجائے ایک ایسے ادارے کے طور پر کام کرتا ہے جو کہ امریکہ اور یورپ کی معاشی بالادستی اور سیاست کو دوام دے سکے۔آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے مغربی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتا دیا ہے کہ وہ پاکستان سے کیا چاہتے ہیں۔ پاکستان کسی ایسے خطرناک مقام پر نہ پہنچ جائے جہاں اس کے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کرنا پڑے۔ آئی ایم ایف دو چیزوں پر زور دیتا ہے ایک یہ کہ ان لوگوں سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے لیکن زیادہ ٹیکس اُنہی سے وصول کیا جائے جو ٹیکس ادا کرنے کی سکت رکھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر معیشت کی بہتری میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ سبسڈیز کی منصفانہ تقسیم کرتے ہوئے صرف ضرورت مند طبقات کو سبسڈی دی جائے اور طبقہ امرا اور اشرافیہ کو سبسڈیز کا فائدہ نہ پہنچے۔ فنڈ پاکستان کے غریب طبقے کا تحفظ بھی چاہتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے تمام اگر مگر اپنی جگہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ دنیا آئی ایم ایف کی اصلاحات پر عمل کئے بغیر کوئی بھی ملک پاکستان کی مالی معاونت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے ورلڈ اکنامک فورم پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ اب اس نے دوست ملکوں کی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کردیا ہے۔ وہ براہ راست مالی مدد کے بجائے دوست ملکوں کے ساتھ شراکت داری کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو تیار ہے۔ سعودی سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی اپنے اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ اس سے قبل یہی بات ہیلری کلنٹن بھی کہہ چکی ہیں یعنی پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف عالمی فنڈ بلکہ اس کے ساتھ کثیر الملکی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک بھی پاکستان کو فنڈنگ کرسکیں۔یعنی اس وقت عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط کو ماننے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قرض لینا کوئی بری بات نہیں اور شاید ہی دنیا کا کوئی بھی ملک ہو جو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض نہ لیتا ہو تاہم اس قرض سے فائدہ اٹھانا اور اسے اس طرح استعمال میں لانا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف موجودہ قرض کی ادائیگی آسان ہوجائے بلکہ مستقبل میں قرض سے چھٹکار ابھی مل سکے۔