آپ بے شک ملک بھر میں میونسپل کمیٹیوں اور کارپوریشنوں کے معاملات کا سروے کرا لیں آپ پر آ شکاراہو جاے گا کہ وہ اپنے فرائض میں کس قدر کوتاہی برت رہی ہیں شہروں میں کہیں بھی آگ لگ جائے انکے پاس قابل اعتبار فائر بریگیڈ سسٹم کا فقدان ہے آگ بجھانے کیلئے انہیں لا محالہ دیگر اداروں کے عملے کا سہارا لینا پڑتا ہے ان کے دائرہ اختیار میں کوئی بھی عمارت متعلقہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے سے اس کا پیشگی نقشہ منظور کرائے اور ان سے این او سی لئے بغیر نہیں کھڑی کی جا سکتی اور نہ ہی پٹرول پمپ لوگوں کی آبادی میں گھرے ہوئے علاقوں میں نصب کیاجا سکتا ہے پر عملاً ایسا نہیں ہو رہا‘ یہ جو محلوں میں اور سڑکوں پر جگہ جگہ آوارہ پاگل کتے آپکو پھرتے نظر آ تے ہیں ان کو ٹھکانے لگانا بھی ان میونسپل اداروں کا کام ہے‘ روزانہ ہر علاقے میں سگ گزیدگی کے درجنوں واقعات ہوتے ہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ سرکاری ہسپتال اور ڈسپنسریاں تو اپنی جگہ‘لوکل گورنمنٹ کے زیر نگرانی چلنے والی ڈسپنسریوں میں بھی سگ گزیدگی کے شکار افراد کو ویکسین لگانے کا بندوبست نہیں ہے گھروں کو پانی سپلائی کرنے کیلئے جو پائپ لائنز بچھائی گئی ہیں وہ ناقص ثابت ہوئی ہیں لگتا ہے ان کی ڈیزائننگ اتنی غلط تھی کہ جس کی وجہ سے ان میں زیر زمین موجود گٹر کا پانی مکس ہو چکا ہے اور ایک عرصے سے پیٹ کی بیماریوں کے خوف سے لوگ اب لوکل گورنمنٹ کے نلکوں سے سپلائی کیا جانیوالا پانی نہیں پی رہے حالانکہ بیس سال قبل منرل واٹر کو کوئی جانتا تک نہ تھا اور لوگ پینے کیلئے لوکل گورنمنٹ کے نصب شدہ نلکوں کا پانی استعمال کیا کرتے تھے جس کی صفائی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کی جایا کرتی تھی اس جملہ معترضہ کے بعد چند دیگر اہم امور پر تبصرہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس سے افسوس ناک خبر کیا ہو گی کہ ایک طرف تو ادویات کیلئے ایل سیز نہیں کھولی جا رہیں تو دوسری طرف گاڑیاں درآمد ہونے کا انکشاف کیا جا رہا ہے بہتر ہوگا کہ اس خبر کے جھوٹ یا سچ ہونے کے بارے میں حکومت فوری وضاحت کرے‘وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو درست کر کے غیر ضروری درآمدات پر مکمل پابندی لگائیں ورنہ ہماری معاشی بد حالی ہمیں اس دلدل میں پھنسا دے گی جہاں سے باہر نکلنا ہمارے لئے نا ممکن ہو گاہماری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ ایک طرف تو وطن عزیز میں غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر لوگ پہلے اپنے بچوں کو زہر پلا کر موت کی نیند سلا رہے ہیں اور اس کے بعد خود بھی خودکشی کر رہے ہیں تو دوسری طرف ہمارے ارباب بست و کشاد نے قائد اعظم کی رحلت کے بعد وطن عزیز کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے درست ترجیحات کا تعین ہی نہیں کیا ہم نے 1947 ء میں آزادی حاصل کی جب کہ چین میں عوامی دور کا ماوزے تنگ کی قیادت میں 1949 ء میں آغازہوا یعنی ہم سے دو سال بعد‘پر چونکہ اس کی قیادت کی ترجیحات درست تھیں وہ چین کو آگے لے گئیں‘ اب تو لگتا ہے ہم اپنا رستہ کھو بیٹھتے ہیں‘ ریاست کا کوئی پرزہ صحیح کام کرتا نظر نہیں آ رہا ماضی قریب تک ملک کے ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا ایک دوسرے کا احترام کیا کرتے اور ایک دوسرے پر ہرزہ سرائی کرنے سے احتراز کیا کرتے وہ کسی بھی معاملے میں لب کشائی کرتے وقت ایک دوسرے کے باہمی احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے یہ باہمی احترام اب قصہ پارینہ بن چکا ہے‘یاد رہے کہ اس ملک اور معاشرے کی چولیں ہل جایا کرتی ہیں کہ جس کے ریاستی اداروں کے اکابرین ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
لاجواب لوگ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
پانی کی قلت کا سنگین خدشہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی ارادے کیا ہیں؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ بمقابلہ چین
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سکواش سے متعلق خوش کن خبر
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
کرکٹ کے کھیل سے جڑے چند حقائق
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
روڈز کی اہمیت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
قصہ ایک ناقابل فراموش پکچرکا
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
طور خم سرحد پر پیدل آمد ورفت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ