نئی خبر یہ ہے کہ میئر پشاور حا جی زبیر علی کی صدارت میں اجلا س کے شرکاء کو پشاور میں نئے ٹریفک سگنلز کی تنصیب کے بارے میں بریفنگ دی گئی ہے نئے سگنلز کی تنصیب کا مقصد ٹریفک کی روانی میں تیزی لا نا اور جا بجا ٹریفک جا م کی کیفیت پر قا بو پا نا ہے میئر حا جی زبیر علی نے اجلا س کو بتا یا کہ نئے سگنلز عوامی جمہوریہ چین سے در آمد کئے گئے ہیں اور ایک شہر ی نے پشاور کی شہری حکومت کو تحفے میں دیئے ہیں گو یا جدید مشینری کی خریداری کا خر چہ کوئی نہیں اس سلسلے میں شہر کی پو لیس ایک محتاط سروے کریگی اس سروے کی روشنی میں کا م کا ٹینڈر ہو گا اس کے بعد نئے سگنلز کی تنصیب کا کا م شروع ہو جا ئے گا‘ پشاور کے شہریوں کے لئے اس خبر کو خوش خبری قرار دیا جا ئے تو بے جا نہیں ہو گا عہد حا ضر کی سہو لیات میں گاڑی بہت بڑی سہو لت ہے مگر جب یہ گاڑی آپ کو لیکر ٹریفک جا م میں پھنس جا تی ہے تو سہو لت کی جگہ مصیبت جنم لیتی ہے اور ٹریفک جا م کی متعدد وجو ہات میں چورا ہوں پر اشاروں کا بے ربط نظام بھی ایک وجہ ہے بلکہ بڑی وجہ ہے جن چوراہوں پر ٹریفک پو لیس کی ڈیو ٹی ہو تی ہے وہاں گاڑی کو رکتے دیکھ کر معصوم بچے سپا ہی کو رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کتنا بڑا آدمی ہے اتنی ساری گاڑیاں اس کے اشارے کا انتظار کر تی ہیں‘گاڑیوں میں ہمارے ابو اور تا یا کی طرح بڑے بڑے آفیسر، بڑے بڑے سیٹھ اور ارب پتی تاجر بیٹھے ہو تے ہیں وہ ٹریفک پو لیس کے سپا ہی کا اشارہ پا کر رک جا تے ہیں اور اسی کے اشارے کو دیکھ کر چل پڑ تے ہیں بڑا ٹھا ٹھ ہے اس کا اور بڑے اختیار ات ہیں اس کے بعد بعض بچے یہ بھی کہتے ہیں کہ میں بڑا ہو کر ٹریفک سارجنٹ بنوں گا پھر سگنل کا زما نہ آیا تو اکثر چوراہوں پر سگنلز لگ گئے بچے ان چوراہوں پر گاڑی کو رکتے ہوئے دیکھ کر سرخ بتی کو بار بار کو سنے لگے یہ کیا مصیبت ہے اب تک ہماری گاڑی چڑیا گھر پہنچ چکی ہو تی‘ بچوں کو سرخ اور سبز بتیوں کے درمیان زرد بتی کا آنا بہت اچھا لگتا ہے‘ وہ سبز بتی کی جگہ زرد بتی کے لئے تا لیاں بجا تے ہیں ان کو پتہ ہے کہ زرد بتی کے بعد سبز بتی آئیگی۔ سگنل پر رکنا اور سگنل کا انتظار کرنا مہذب قوموں کا شیوہ ہے جرمنی کے ایک چانسلربسمارک نے 1876ء میں کہا تھا کہ میرے ملک کا اُلو بھی سگنل کو نہیں توڑے گا ہمارے اُلّو ایسے نہیں ہیں ان کو سگنل توڑ نے میں اپنی طا قت اور بڑا ئی نظر آتی ہے اکثر حا دثات بھی سگنل توڑ نے سے پیش آتے ہیں گھسا پٹا اور رٹا رٹا یا لطیفہ ہے‘ٹریفک سارجنٹ نے سگنل توڑنے پر ڈارئیور کو چا لان کیا تو ڈرائیور نے کہا میں نے سگنل کو ہاتھ بھی نہیں لگا یا وہ دیکھو سگنل کھمبے پر لگا ہوا ہے‘ میں نے اسے توڑا نہیں ٹریفک سارجنٹ نے بڑی مشکل سے اس کو قائل کیا کہ تم نے سگنل کا قانون توڑ دیا ہے‘ سرخ بتی کی خلاف ورزی کی ہے‘ ڈرائیور بولا میں نے تینوں طرف دیکھا کوئی گاڑی نظر نہیں آئی اس لئے چوراہا پار کیا، ٹریفک سارجنٹ نے کہا تم نے گاڑیوں کو نہیں دیکھنا بلکہ سامنے کھمبے پر لگے سگنل کو دیکھنا ہے رات 3بجے سڑک سنسان ہو تب بھی تم کو سرخ بتی پر رکنا ہے‘ ترقی کے سفر میں کرا چی، لا ہور اور اسلا م آباد میں سگنل فری چو را ہے وجود میں آئے ہیں اوریہ زمین کے اوپر یا نیچے یا اوپر نیچے پل بننے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے پشاور کو سگنل فری ہو نے میں وقت لگے گا اچھی خبر یہ ہے کہ اس سال پشاور میں ٹریفک سگنلز کا جدید ترین سسٹم آئیگا تما م چورا ہوں پر نئے امپورٹڈ سگنلز لگیں گے اور ٹریفک کی روانی میں حا ئل بڑی رکا وٹ دور ہو گی۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی