اگر بازار میں گھومنا پھرنا ہو۔ ساتھ بچے بھی ہوں تواحتیاط کا دامن تھام لیں بلکہ بچے ہی کا ہاتھ کلائی سے تھام لیں وہ آپ کے ہاتھ کی انگلی نہ تھامیں‘کیونکہ بچے ہیں ناسمجھ اور نادان۔ کسی دکان میں کوئی کھلونا یا کھانے پینے کی چیز دیکھ کر رش کے بیچ بازار میں سڑک ہو تو ایک دم سے انگلی چھڑا کراس دکان کی جانب بھاگ نکلتے ہیں‘ ایسے میں ان معصوموں کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ سمجھ دا رماں باپ بچوں کو اپنا ہاتھ نہیں تھماتے بلکہ ان کا ہاتھ خود پکڑ لیتے ہیں کہ اچانک انگلی چھڑا کر بھاگ نہ نکلیں یا پھر رش میں ان سے ہاتھ چھوٹ ہی نہ جائے۔ بچوں کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ ہمارے ہاں سڑک کو بغیر دیکھے اور وہ بھی گھبراہٹ میں تیز رفتاری سے دوڑ کر کراس کرتے ہیں۔ جیسے وہ آنے والے رکشہ یا موٹر سائیکل کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی سڑک کے دوسرے کنارے پہنچ جائیں گے۔ یہی حادثہ ہوا مگر شکر ہے بچہ زخمی بھی نہیں ہوا او رکار سے ٹکرایا رویا دھویا مگر بچ گیا۔ سڑک کے ایک فٹ پاتھ پر سے اس کی ماں دوسرے کنارے پر پہنچی۔ خود اس خاتون کی والدہ دوسرے کنارے پر ان بچوں کے ساتھ سڑک پر ٹریفک کے کم ہونے کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ ماں تو پار نکل گئی۔مگر ماں کو دیکھ کر دو بہن بھائی بچوں نے اچانک نانی اماں کی انگلی چھڑا کر دوڑ لگا دی۔نتیجہ یہ کہ سامنے سے ایک سفید ریش ڈرائیور ٹیکسی کو تیزی سے چلاتا ہوا وہاں آن دھمکا۔جس سے دونوں بچے کار سے ٹکرآکر گر گئے‘لوگوں نے اس ڈرائیور کو پکڑ کر سڑک کے ایک طر ف کھڑا کر دیا‘وہ ٹیکسی ڈرائیور کو قصور وار بتلارہے تھے۔ چونکہ میرے سامنے یہ سب تماشا ہوا اس لئے میں اس حادثے کا چشم دید گواہ تھا‘ڈرائیورکا کہنا تھا کہ میرا قصور نہیں ہے‘ میں اول تو تھوڑی دیر تک کھڑا رہا کہ چلو معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔ مگر جب بات بڑھنے لگی اور یہ لوگ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ رہے تھے تو مجھے بھی بیچ میں کودنا پڑا۔ ایک موٹرسائیکل سوار جو بچوں کا شاید والد لگتا تھا وہ بھی غصے سے لال پیلا ہو رہا تھااور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔پھر اگر ڈرائیور کا بھی قصور نہ تھا تو آخر کس کا قصور تھا۔دونوں فریقین فٹ پاتھ پر ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے۔ میں جب پہنچا تو میں نے کہا دیکھو ڈرائیور کا قصور نہیں تھا۔ قسمت میں یہ حادثہ ہونا لکھا تھا شکر کرو خیر ہوگئی بچے گھبرا گئے ہیں۔ ورنہ ان کو بھی شکر ہے کہ کچھ نہ ہوا۔میں ایک نتیجے پر پہنچا کہ قصور آخر کس کا تھا۔ اگر کہہ دیتا تو وہاں دونوں فریقین لڑائی چھوڑ کر تیسرے بندے کے پیچھے پڑ جاتے‘میں نے کہا میں نے سب کچھ دیکھا ہے۔ چلو خیر ہوگئی جس کا بھی قصور ہے بچے تو بچ گئے۔تب معاملہ رفع دفع ہوا‘میری پچھلی سواری تو اس حادثے کو بہ چشمِ خود دیکھ کر بچوں کے لئے حد سے زیادہ پریشان ہو ئی اور خود کوپیٹنے لگی کہ ہائے میں مرجاوا ں بچے تو گئے وہ بھی اس اکھاڑے میں کودنے کی کوشش میں تھی۔ میں نے اس کو وہیں منع کیا۔ دل میں کہا کہ اب جو صلح کا ماحول بن رہا ہے کہیں زیادہ آگ نہ پکڑ لے‘ بچے اچانک دوڑ کر دوسرے ہاتھ پر کار کے پاس پہنچ گئے تو سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ بچو ں کا ہاتھ نانی ماں نے کیوں چھوڑ دیا۔ہوسکتا ہے دونوں بچوں نے خود ہاتھ چھڑا لیا ہو اور دوڑ پڑے ہوں۔پھر بچے کس چیز کے لئے سڑک کے دوسرے کنارے کو دوڑے تھے۔سو ان خواتین کو درکار تھا کہ وہ بچے کو اپنا ہاتھ نہ تھماتیں بلکہ خود ان کا ہاتھ پکڑ لیتیں۔ اب آتے ہیں اصل قصور وار کی طرف شاید آپ کو اس سے اتفاق نہ ہو تو آپ کو اجازت ہے کہ اپنا اختلافی بیان دے سکتے ہیں‘ اصل میں سڑک کے پرلے کنارے سے بچوں کی امی کسی دکان کی طرف اپنے فٹ پاتھ کو چھوڑ کر دوسرے کنارے پہنچ گئی تھی۔اس کواندازہ تھا کہ بچوں کو نانی نے سنبھال رکھا ہے‘مگر جو پرواہ ماں کو ہوتی ہے وہ بچوں کے معاملے میں خود ان کے باپ کوبھی نہیں ہوتی۔ماں نے دوسرے کنارے جانے کی جو جلدی کی اس کا خمیازہ بھگتا بھی پڑا۔ وہ بچے ماں کے پیچھے دوڑ پڑے۔ ماں کو معلوم نہ تھا کہ میرے پیچھے میرے بچے بھی دوڑ رہے ہیں‘نانی ماں تو بوڑھی ہڈیوں کے ساتھ سب منظر دیکھ کر بھی ان کو بچا نہ سکتی کیونکہ بچے تو بجلی کی تیزی کے ساتھ ریس لگا کر ماں کا ہاتھ پکڑنے کو دوڑے تھے۔