عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ کو تیسری مدت کے لئے بھی چین کا صدر مقرر کر دیا گیا ہے‘ جس کے بعد وہ چین کے سب سے طاقتور رہنما بن کر اُبھرے ہیں اور جدید چین کے معمارکہلاتے ہیں۔ چین کے قانون ساز ایوان (پارلیمنٹ) کی جانب سے یہ تقرری ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب صدر شی جن پنگ اکتوبر میں چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے سربراہ کی حیثیت سے مزید پانچ سال کے لئے منتخب کئے گئے۔ رواں ہفتے نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) صدر شی جن پنگ کے اتحادی لی چیانگ کو نیا وزیر اعظم بھی مقرر کیا۔ مندوبین نے شی جن پنگ کو تیسری مدت کے لئے چین کا صدر اور ووٹنگ کے ذریعے انہیں ملک کے سینٹرل ملٹری کمیشن کا سربراہ بھی منتخب کیا۔اِس موقع پر بیجنگ کے ’گریٹ ہال آف دی پیپل‘ کو تیانمن اسکوائر کے کنارے واقع ایک سرکاری عمارت کو تاریخی ووٹنگ کے لئے سرخ قالینوں اور بینرز سے سجایا گیا۔ فوجی بینڈ کی دھنوں میں اسٹیج کے کنارے پر لگائے گئے ڈیجیٹل مانیٹر کی مدد سے اعداد و شمار کا اعلان کیا گیا۔ تمام کے تمام ووٹ (2952) شی جن پنگ کو ملے۔ صدر شی نے اپنا بائیں ہاتھ چین کے آئین پر رکھا جو سرخ رنگ کے چمڑے میں لپٹا ہوا تھا اور انہوں نے کہا کہ ”میں عوامی جمہوریہ چین کے آئین کے ساتھ وفادار رہنے‘ آئین کے اختیار کو برقرار رکھنے‘ اپنی قانونی ذمہ داریوں کو نبھانے‘ مادر وطن سے وفادار رہنے اور عوام سے وفادار رہنے کا وعدہ کرتا ہوں“ دنیا بھر میں بذریعہ ٹیلی ویژن اور یوٹیوب براہ راست دکھائے جانے والے اِس حلف نامے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خوشحال‘ مضبوط‘ جمہوری‘ مہذب‘ ہم آہنگ اور عظیم جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیر کا عہد بھی کیا۔ صدر شی جن پنگ کا دوبارہ منتخب ہونا ایک قابل ذکر عروج کا نتیجہ ہے جس میں وہ نسبتاً کم معروف پارٹی سے اُبھرتے ہوئے عالمی رہنما بن گئے ہیں۔ تاج پوشی سے وہ کمیونسٹ چین کے سب سے طویل عرصے تک صدر رہنے والے رہنما بن گئے ہیں یعنی شی جن پنگ اپنی عمر کے ستر سال گزارنے کے بعد بھی حکومت کریں گے۔ ”شی جن پنگ: دی موسٹ پاور مین ان دی ورلڈ“ نامی کتاب کے شریک مصنف ایڈرین گیگس نے اِس حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر شی جن پنگ کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا کچھ بھی کہے لیکن چین کے عوام کے لئے وہ ایک عظیم رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں اُن کے پاس چین کے بارے میں واقعی ایک ویژن ہے اور وہ چین کو دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔کئی دہائیوں تک جدید چین‘ اپنے بانی رہنما ماؤ زے تنگ کی حکمرانی اور شخصیت سے متاثر تھا جسے صدر شی نے آ کر تبدیل کیا ہے۔ صدر شی کے پیشرو جیانگ زیمن اور ہو جن تاؤ نے دس سال تک حکومت کی تھی۔ صدر شی کی غیر معمولی تیسری مدت کا آغاز ایسے وقت میں ہوا ہے جب چین جو کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اپنی سست شرح نمو کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ جائیداد (رئیل اسٹیٹ سیکٹر) سے لے کر شرح پیدائش میں کمی تک چین کوبڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ چین کے اِس وقت امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی تاریخ کی نچلی سطح پر ہیں جو کئی دہائیوں میں نہیں دیکھے گئے‘ جہاں طاقتوں کے درمیان انسانی حقوق سے لے کر تجارت اور ٹیکنالوجی تک ہر چیز پر اختلافات حاوی ہیں۔ دنیا چین کو عالمی سطح پر زیادہ جارحانہ انداز میں دیکھ رہی ہے اور چین چاہتا ہے کہ اُس کا بیانیہ من و عن قبول کیا جائے جس کی راہ میں امریکہ حائل ہے۔ صدر شی کو نئی مدت صدارت کے دوران چین کے بیرونی ملک سے حاصل ہونے والے خام مال پر انحصار کو کم کرنا ہے اور اِس دوران وہ کمیونسٹ پارٹی کو حکمرانی کا مرکز بنانے پر بھی توجہ مبذول رکھیں گے جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے اور کیمونسٹ پارٹی ہی چین کے فیصلے کرتی ہے۔ صدر شی کے دوبارہ صدر مقرر ہونے سے سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبے (بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو) کی تکمیل کے لئے پیشرفت ہو گی جو پاکستان کے لئے اچھی خبر ہے‘امید ہے کہ پاکستان اورچین کے درمیان برادرانہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے‘جمہوریت کا تسلسل ہی کسی جمہوری ملک کی ترقی کی ضمانت ہو سکتا ہے‘تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک میں جمہوری اقدار کی پاسداری کی جاتی ہے وہاں کے عوام کبھی مسائل یا بحرانوں کا شکار نہیں ہوئے۔