وہ ایک ادارے کے ذمہ دار افسر ہیں۔میں نے کسی تقریب میں پوچھا آپ کا موبائل نمبر مل سکتا ہے۔اس پر انھوں نے بات کو اِدھر اُدھر کر دیا۔ شاید نمبر دینا پسند نہ کرتے ہوں۔ میرا حق تو نہیں اور کسی کا حق بھی نہیں کہ وہ کسی کا نمبر مانگنے پر حاصل بھی کر سکے۔ کچھ روز گزرے تو مجھے ان سے کام پیش آ گیا۔میں نے ایک دوست کو فون کر کے ان کا موبائل نمبر معلوم کرنا چاہا۔ معلوم ہوا صاحب کے پاس موبائل سرے سے موجود نہیں۔مجھے حیرانی ہوئی سوچا چہرے مُہرے اور لباس وغیرہ سے تو غریب نہیں لگتے۔پھر آج کل کسی کے پاس کھانے جوگی روٹی نہ ہو مگر پندرہ سو روپے تک کا پرانا بلکہ اسی قیمت میں نیا موبائل بھی پاس موجودہوتا ہے۔دل میں گلہ ہوا کہ یہ اگر موبائل رکھ لیں تو ان کاکیا جاتا ہے۔دوسروں کے کام تو ہوں گے۔پھر ان کے سرکاری نمبر پر فون کیا۔ پی اے نے کہا صاحب ٹور پر ہیں کل آئیں گے۔ دریافت کرنا چاہا ان کا موبائل نمبر ہو۔ مگر ٹکا سا جواب ملاوہ موبائل استعمال نہیں کرتے۔ مجھے شدید الجھن اور حیرانی ہوئی کہ اس جدید دور اگر ادارہ کے چیف کے پاس موبائل نہ ہو تو وہ دفترکیسے چلائے گا۔پتا چلا ان کو موبائل رکھنا پسند نہیں۔ میں سوچنے لگا ہونہ ہو ان کو گھر کی طرف سے کوئی پریشانی لاحق ہوگی۔ اسی لئے تو ان کے پاس موبائل فون نہیں۔یاد آیا ہمارے ایک دوست رنگساز ہیں۔لوگوں کے گھروں اوردفتروں میں جا کر دیواروں پر پینٹ کرتے ہیں۔وہ بھی موبائل جیسی چیز اپنے پاس نہیں رکھتے۔مجھے بہت چڑ ہوئی میں جھنجھلا گیا۔محفل میں ملے توکہا یار تم اپنے پاس موبائل کیوں نہیں رکھتے۔ اتنا ضروری کام تھا تم سے مگرتمھارا اتا پتا ہی نہیں۔ آدمی سستا سا موبائل تو رکھتا ہے نا۔ تم کسی کو فون بھلے نہ کرو مگر فون سننے کو تو اپنے پاس رکھو۔ وہ میرے ساتھ بہت فری سٹائل میں باتیں کرتے۔ فرمانے لگے تمھارا دماغ خراب ہے۔ مجھے کس بھڑ نے کاٹا ہے کہ میں فون جیب میں رکھ کر گھوموں۔ میں نے کہا فون رکھو تو اس سے کیا ہوتاہے۔کسی دوسرے بندے کو فائدہ مل جاتا ہے اگر تم کو نہیں ملتا۔فرمانے لگے اوئے بات سن میں میرے پاس فون تھا مگر میں نے بیچ دیا ہے۔گھر میں کہا مجھ سے گم ہوچکا ہے۔کہا گیا پیسے مجھ سے لو اور اپنے لئے موبائل خرید لو۔ میں نے کہا نہیں میری غیرت کو گوارا نہیں۔جیب میں اپنے پیسوں کا موبائل مزاکرتا ہے۔میں نے موبائل خریدے کا ارادہ ترک کر رکھا ہے۔ مزدور آدمی ہوں۔بانس کی سیڑھی پر گندے مگندے کپڑے پہن کر ہاتھوں میں رنگ کرنے کا برش پکڑے ہوتاہوں۔سیڑھی کے آخری پاؤں کے پر میخ کے اوپر رنگ کا ڈبہ لٹکا ہوتا ہے۔اس دوران ایک گھنٹے میں تیسری بار گھر سے فون آنے کی گھنٹی بجتی ہے۔ اب میں ایک ہاتھ سے سیڑھی کو سنبھالوں اور دوسرے ہاتھ سے رنگ کی کوچی تھاموں۔موبائل کیسے استعمال کر سکتا ہوں۔پھرایک اور ٹینشن دلانے والا مسئلہ ہے۔مجھے تجسس نے آن گھیرا پوچھا وہ کیا ہے۔فرمایا تیری بھابھی دن میں پینتالیس بار فون کرتی ہے۔کیا کر رہے ہو۔بتلاتاہوں رنگ کر رہاہوں۔ کب آؤ گے۔اپنے وقت پر آؤں گا۔ جیسے روزآتا ہوں۔ اچھا آتے ہوئے کچھ کھانے پینے کا سامان لے آنا۔میں کہتا ہوں یار میری جیب میں روپیہ بھی نہیں ہے۔کہتی ہیں اچھا چلو خیر ہے چھ انڈے تو لے آنا۔ اس گفتگو کے دوران میں مجھے اوپر سے گر جانے کا بھی تجربہ حاصل ہے۔ جس کے بعد میں نے ایک ماہ کے لئے اپنے پاؤں پرگرم پٹی باندھی اور لنگڑا کر چلتا رہا۔پھر کسی گھر میں فون کے سگنل بھی ٹھیک کام نہیں کرتے۔فون پر کہتا ہوں ذرا ٹھہرو میں کمرے سے باہر صحن میں جاتا ہوں۔یہاں سگنل نہیں آتے۔چاہوں نہ چاہوں سیڑھی سے نیچے اُترنا پڑتا ہے کہ خدا خیر کرے گھر میں کیا ہوگیا ہے۔ اس ایک منٹ کی دیر لگانے پر ان کوجانے کس بات کا شک گزرتا ہے۔اس کے بعد سوالات پہ سوالات شروع کردیتی ہیں۔ آدمی کام کرے یا سوالو ں کے جواب دے۔میں رنگ کرنے یہاں آیاہو ں تمھارے سوالوں کے جوابات کا پرچہ حل کرنے کو نہیں آیا۔یار کون سیڑھی سے اُترے اورفون سنے اور پھر سیڑھی پر چڑھ جائے۔ پھر جونہی سیڑھی پر چڑھوں دوبارہ فون آتا ہے پھر نیچے اُترتا ہوں۔صحن میں جاتا ہوں تو پوچھتی ہے یہ تم فون اٹھانے میں اتنی دیر کیوں لگاتے ہو۔ میں کہتا ہو ں کام کی بات کر و۔ کہتی ہے میں یاد دلانا بھول گئی تھی آج شام کو آپ آئے تو امی کے یہاں چلیں گے۔اچھا اچھا ٹھیک ہے میں کہہ کر فون بند کردیتاہوں۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ اس موقع پر مجھے کیا کرنا چاہئے۔پھر اگر جواب نہ دو تو دو دو دن ناراضی چلتی ہے۔بات ہی نہیں کرتیں۔ اس لئے گھر کا سکون برباد کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے پاس فون نہیں رکھتا۔