انجام کار توشہ خانے سے فائدہ اٹھانے والوں کے نام میڈیا میں آ چکے ہیں اب وقت آ گیاہے کہ غیر ملکی حکمرانوں کی جانب سے وطن عزیز کے ارباب اقتدار کو ان کے بیرونی دوروں کے دوران ملنے والے تحفوں اور تحائف کے ڈسپوزل کے بارے میں ایک سادہ اور جامع پالیسی مرتب کی جائے اور پھر اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کیا جائے۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ جونہی ہمارا کوئی بھی حکمران بیرونی دورے سے واپس آ ئے تو وطن واپسی پر وہ فوراً سے پیشتر ان تحائف کو ڈکلیئر کر کے انہیں سٹیٹ بنک میں جمع کرائے ایک ہفتے کے اندر اندر وزارت خارجہ ایک کمیٹی کے ذریعے ان تحفوں کی مارکیٹ ویلیو متعین کرائے اور پھر اس شخص سے یہ کہے کہ جسے یہ تحفے ملے ہوں کہ وہ اگر ان تحفوں کو اپنے پاس رکھنے کا خواہش مند ہے تو ان کی آدھی قیمت وہ سرکاری خزانے میں جمع کرا دے جس کے بعد وہ ان کا مالک بن سکتا ہے پر ایسا کرنے کے بعد وہ
ان کو پھر فروخت نہیں کرے گا اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پندرہ دن کے اندر اندر مناسب اعلان عام کے بعد ایک تاریخ مقرر کر کے ان تحفوں کو نیلام کر دیا جائے اور نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کو سرکاری خزانے میں جمع کر دیا جاے۔ اب کچھ عالمی منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں جہاں صدر شی جن پنگ تیسری مدت کے لئے چین کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ کمیونسٹ چین کے بانی ماوزے تنگ کے بعد صدر شی کو ملکی تاریخ کا سب سے طاقت ور حکمراں سمجھا جاتا ہے۔ چین کی نیشنل پیپلز کانگریس (پارلیمنٹ) کے لگ بھگ تین ہزار ارکان نے جمعے کو صدر کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالے اور تمام کے تمام ووٹ صدر شی کے حق میں ڈالے گئے۔انہتر سالہ صدر شی کے خلاف صدارت کے لئے کوئی امیدوار مدِ مقابل نہیں تھا۔ جمعے کو رسمی ووٹنگ کا عمل ایک گھنٹے تک جاری رہا جس کے بعد 15 منٹ کے اندر الیکٹرانک گنتی کا عمل مکمل کیا گیا۔واضح رہے کہ صدر شی نے گزشتہ برس اکتوبر میں آئندہ پانچ برس کے لئے خود کو پارٹی کا جنرل سیکرٹری منتخب کرا لیا تھا۔ شی کے اس انتخاب سے 10 سال بعد اقتدار کی منتقلی کی روایت بھی ٹوٹ گئی تھی۔جمعے کو پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران ملک کے نائب صدر اور پارلیمنٹ کے چیئرمین کا بھی انتخاب عمل میں آیا۔پارلیمنٹ نے 66 سالہ ژاو لیجی کو پارلیمنٹ کا چیئرمین اور ہان زینگ کو ملک کا نائب صدر منتخب کر لیا۔ دونوں رہنما صدر شی کی سابقہ ٹیم کا حصہ ہیں۔چین کے صدر کو اگر اس وقت دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا اور ایسے حالات میں کہ جب امریکہ چین کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اور چاہتا ہے کہ اسے کسی طرح جنگ میں دھکیلے تاکہ اس کی معاشی ترقی کا سفر رک جائے، صدر ژی کا منتخب ہونا کافی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ چینی قیادت کا تسلسل ہی ہے جس نے چین کو آج اس مقام پرلاکھڑا کیا ہے کہ اسے بلا شبہ سپر پاور کی حیثیت حاصل ہے اور ہر لحاظ سے اس نے مثالی ترقی کی ہے۔عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماؤزے تنگ سے لے کر موجودہ صدر شی تک تمام رہنماؤں نے اس امر کو یقینی بنایا کہ چین کی ترقی کاسفر نہ رکے۔ یہ چینی قیادت کا کارنامہ ہی ہے کہ تھوڑے عرصے میں چینی آبادی کے ایک بڑے حصے کو غربت سے نکال کران کو خوشحال زندگی کی سہولیات فراہم کی ہیں۔