گزشتہ برس (دوہزاربائیس) میں اقوام متحدہ نے ”اسلامو فوبیا کے خلاف بین الاقوامی دن“ منانے کا فیصلہ کیا جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے رواں برس (دوہزارتئیس) پہلی مرتبہ پندرہ مارچ کے روز یہ دن 140 ممالک میں منایا جائے گا۔ ’پندرہ مارچ‘ کا دن نیوزی لینڈ کے شہر ’کرائسٹ چرچ‘ کی ایک مسجد پر ہوئے حملے کی یاد میں مقرر کیا گیا ہے۔ مذکورہ دہشت گرد حملہ کرنے والے اٹھائیس سالہ‘ سفید فام آسٹریلوی نژاد باشندے نے ’النور‘ نامی مسجد پر نماز جمعہ کے وقت کیا اور اِس سے مجموعی طور پر 51 اموات ہوئیں جبکہ 40 افراد زخمی بھی ہوئے۔ تین سال قبل (دوہزاراُنیس میں) پیش آنے والے اِس حملے کے بعد مسلم دنیا کے رہنماؤں اور دانشوروں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے غلط تصورات اور خوف کے ازالے کے لئے کوششوں کا آغاز کیا اور اِس مسئلے کو اقوام متحدہ میں بھی اُٹھایا گیا اور اِنہی کوششوں کی کامیابی کا نتیجہ تھا کہ کل (پندرہ مارچ کے روز) اقوام متحدہ کے 140 ممالک میں یہ عالمی دن منایا جائے گا یقینا وقت آگیا ہے کہ اِس موضوع پر غور کیا جائے کہ بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کو ختم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔اسلامو فوبیا کے عالمی دن (پندرہ مارچ) کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے صدر دفتر (نیویارک امریکہ) میں مرکزی تقریب کا انعقاد ہوگا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے خصوصی ایلچی مقرر کرنے کی تجویز پیش کی ہے‘ ساتھ ہی نفرت انگیز تقاریر اور مقدس مقامات پر حملوں یا مقدس لٹریچر کو جلانے پر پابندی کے قوانین کی تجویز بھی پاکستان کی جانب سے دی گئی ہے۔ یہ تمام ٹھوس تجاویز ہیں لیکن مغربی دنیا میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف عمومی روئیوں اور عمومی خیالات کو تبدیل کرنے کے لئے مزید کام کرنے (زیادہ محنت) کی ضرورت ہے کیونکہ صرف سال کا کوئی ایک دن ’اسلامو فوبیا‘ سے منسوب کرنا کافی نہیں بلکہ مقصد و ہدف کو حاصل کرنے کے لئے سارا سال محنت کرنا ہوگی۔ ذہن نشین رہے کہ سال دوہزاربیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسلامی کانفرنس تنظیم کی حمایت سے یہ دن منانے کی تجویز پیش کی تھی جس کے بعد اقوام متحدہ نے اس دن کو دنیا بھر کے ممالک میں ایک مرکزی نقطہ بنانے اور مسلمانوں کے خلاف ان کے عقیدے کی بنیاد پر ہونے والے جرائم یا امتیازی سلوک کے خلاف لوگوں کو متحد کرنے کے لئے یہ دن مقرر کیا جو مذاہب کے خلاف جاری عدم برداشت و عدم رواداری ختم کرنے کی جاری عالمی کوششوں کا تسلسل ہے۔ اسلامو فوبیا مغربی ممالک میں بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ بالخصوص ’نائن الیون حملوں‘ کے بعد سے اِس میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ امریکہ کی فلمی صنعت (ہالی ووڈ) میں بنائی جانے والی فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے سے لے کر مشرق وسطیٰ میں کبھی نہ ختم ہونے والی مغربی جارحیت تک ’اسلاموفوبیا‘ پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے مطالعات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اِن پر ’پرتشدد حملوں‘ کے علاوہ دیگر طریقوں سے بھی امتیازی سلوک تقریبا ًروزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے‘ جس میں حجاب پہننے پر پابندی یا مذہبی رسومات پر عائد پابندیاں شامل ہیں اور یہ بات بھی تحقیق سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے جرائم کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ وقت ہے کہ دنیا بات چیت کے ذریعے اُن سبھی مسائل کو حل کرے جو انسانی ترقی کی راہ میں حائل ہیں اور نفرت کسی بھی شکل و صورت میں تعمیری نہیں ہو سکتی۔