ایک تاریخی پیش رفت

امریکہ اور اس کے دباؤ کی سفارت کاری کے برعکس، چین بتدریج ایک سپر پاور کے طور پر اُبھر رہا ہے جس میں بنیادی طور پر مفاہمت اور امن پر مبنی سفارت کاری ہے۔کئی دہائیوں سے، خطے میں تیل پیدا کرنے والے دو بڑے  ممالک ایران اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام شدید دباؤ کا شکار ہے۔ دونوں نے بالآخر سات سال کے وقفے کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے اور اپنے اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔یہ معاہدہ بیجنگ میں چین کی ثالثی کے بعد طے پایا۔ ایک مشترکہ بیان کے مطابق، مذاکرات کے نتیجے میں دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات بحال کرنے اور سفارتخانے دوبارہ کھولنے کا معاہدہ ہوا۔ اس پر عمل درآمد ہونے کے بعد، دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ سفیروں کے تبادلے کے انتظامات کرنے کے لئے بلائیں گے۔ مزید برآں، اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی ریاستی خود مختاری کا احترام کرنے اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنے کا عہد کیا ہے۔ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ ریاض اور تہران نے 2001 میں طے پانے والے سیکورٹی تعاون کے معاہدے کو فعال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں  ایران اور سعودی عرب کے درمیان  اختلافات مشرق وسطی کی سیاست میں غالب رہی ہے، اس کے اثرات دوسرے پڑوسی ممالک میں بھی محسوس ہوئے۔ شام، عراق، لبنان اور یمن جیسے ممالک۔ اگرچہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ممکنہ مفاہمت کے حوالے سے بات چیت برسوں سے جاری ہے، بنیادی طور پر عراق میں، یہ معاہدہ بالآخر چین میں ہوا۔گزشتہ چند مہینوں سے، بیجنگ نے مشرق وسطی میں اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں تاکہ وہاں ہاٹ سپاٹ کو بجھایا جائے اور دیرپا امن قائم کیا جائے جو کہ اقتصادی ترقی کے لئے ایک شرط ہے۔ گزشتہ ماہ، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے بیجنگ کا دورہ کیا، جب کہ چینی صدر شی جن پنگ دسمبر میں تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی عرب ممالک کے ساتھ ملاقاتوں میں شرکت کے لئے ریاض میں تھے جو چین کی توانائی کی فراہمی کے لئے اہم ہیں۔دونوں اعلی سطحی دورے چین کے سفارتی منصوبے کا حصہ تھے تاکہ دونوں پڑوسیوں کو ان کے دیرینہ متنازعہ مسائل پر بات چیت کے ذریعے حل کی طرف لایا جا سکے۔ یہ چین کے موروثی مفاد میں ہے کہ وہ تہران اور ریاض دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کے لئے اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھائے۔
یہ اعلان خلیجی خطے میں چین کی سفارتی فتح کی بھی نمائندگی کرتا ہے، جسے روایتی طور پر امریکہ کے زیر اثر دیکھا جاتا ہے۔ ایرانی قومی سلامتی کے سربراہ علی شمخانی، سعودی قومی سلامتی کونسل کے مشیر موساد بن محمد العیبان اور چین کے اعلی سفارت کار وانگ یی 6 مارچ سے بیجنگ میں بات چیت میں مصروف تھے۔گزشتہ ماہ صدر شی جن پنگ نے یوکرین کے تنازعے پر 12 نکاتی پوزیشن پیپر پیش کیا، جو تمام تنازعات کو بات چیت اور مفاہمت کے ذریعے حل کرنے کا خاکہ ہے۔ امریکہ کے برعکس، جو خارجہ پالیسی کے دائرے میں پچھلی چند دہائیوں میں زیادہ جنگجو بن گیا ہے، چین شعوری طور پر مذاکرات اور ٹیبل ٹاک کے تصور کو اقوام کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو دور کرنے کے لئے اہم ہتھیار کے طور پر فروغ دے رہا ہے۔بیجنگ میں ہونے والا معاہدہ چین کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور خلیجی خطے میں اس کے ایک اہم سفارتی اور سٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر اُبھرنے کی علامت ہے۔ تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات میں ثالثی کرنے کی چین کی الگ صلاحیت، ایک ایسا کردار جو پہلے امریکہ اور یورپی ممالک کے پاس تھا،  اور یہ امکان نہیں ہے کہ واشنگٹن کی طرف سے اسے پذیرائی ملے۔ دسمبر میں، چینی صدر شی جن پنگ کا ریاض میں شاندار استقبال کیا گیا جس میں 14 عرب سربراہان مملکت اکٹھے ہوئے۔ یہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ نسبتاً غیر قابل ذکر ملاقات کے چند ماہ بعد ہوا ہے، جن کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ایک قابل اعتماد ثالث کے طور پر چین کے ابھرتے ہوئے کردار کو بیرونی دنیا تیزی سے تسلیم کر رہی ہے اور امریکہ اور مغرب کی دباؤ کی سفارت کاری کا مقابلہ کر رہی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چین اب ایسے معاملات پر زیادہ پرسکون سفارتی موقف اپنا رہا ہے جہاں مغربی دارالحکومت یوکرین تنازعہ جیسے امن فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر خطے میں چین کے مفادات سے کارفرما ہے۔چین نے دو اہم سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، ایک علاقائی اہمیت کے ساتھ اور دوسرا اقتصادی اہمیت کے ساتھ، خطے میں کشیدگی کو کم کرنے اور دونوں فریقوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے مقصد کے ساتھ۔جیسا کہ چین عرب دنیا میں اپنی سفارتی مصروفیات کو بڑھا رہا ہے، واشنگٹن اس وقت کافی حد تک بیک فٹ پر ہے۔ ایران سعودی معاہدہ  پروائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ سعودی عرب نے امریکہ کو بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور امریکہ نے اس عمل کی حمایت کی ہے۔یہ چین کے بارے میں نہیں ہے۔ ہم خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کی کسی بھی کوشش کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے مفاد میں ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس پر ہم نے اپنے موثر امتزاج ڈیٹرنس اور ڈپلومیسی کے ذریعے کام کیا۔بہر حال، چین نے مشرق وسطی میں امن کی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے اپنی سفارتی طاقت کو بہت موثر طریقے سے استعمال کیا ہے، جو کہ پوری دنیا میں امن اور استحکام کیلئے اچھی بات ہے۔ ہم بیجنگ کی اسی طرح کی مثبت شمولیت کو دوسرے فلیش پوائنٹس میں دیکھ سکتے ہیں جو عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں۔ اس سے یہ راہ ہموار ہو گئی ہے کہ چین عالمی تنازعات میں ثالث کا کردار کامیابی سے ادا کر کے دنیا کو جنگ و جدل کی بجائے امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے پاکستان کیلئے بھی اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔(بشکریہ دی نیوز، تحریر:ڈاکٹر عمران خالد، ترجمہ: ابوالحسن امام)