اپنا گاؤں بہت یاد آتا ہے 




 پشاور کی ہستی دو حصوں پر مقیم ہے اور انہی پر تقسیم ہے۔ ایک اندرونِ شہر اور دوسرا بیرونِ شہرہے۔پہلے پہل پشاور جس کا نام تھا سولہ دروازوں کے اندر واقع تھا۔مگر شہر کے اندر  ایک حبس دم کا عالم ہے۔اس کی فصیل باہر سے دیکھنے والوں کی نگاہیں اپنے پاس گروی تو رکھ لیتی ہے۔مگر اندر کا شہر اب تو کاروباری زون بن چکا ہے۔ جس کابس چلتا ہے اپنے گھر کو مسمار کرکے وہاں ایک آدھ بلڈنگ کھڑی کر دیتا ہے۔لہٰذا شہر کے اندر فضا گھٹن والی اور تنگ داماں ہے۔جو اندر رہ رہے ہیں ان کو تو احساس نہیں ہو پاتا۔مگر جو ایک بار شہر کے دروازوں کے باہر جا کر رین بسیرا کر لے وہ واپس نہیں آنا چاہتا۔کیونکہ شہر کے اندرون تنگ گھر ہیں جن کا رقبہ دو مرلے اور چار مرلے ہے۔یہ مکانات بیچ کر لوگ اندرون سے بیرون از شہر منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس موقع پر ان کو دس دس مرلے کی جگہ مل جاتی ہے۔جہاں یہ نئے گھر کی کھلی فضا میں اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ ان کو جتنا کہیں کہ شہر واپس آ جاؤمگر ان کا واپسی کا سفر آسان نہیں ہوتا۔اندرون شہرعمارات کاسلسلہ استوار ہو چکا ہے اور ساتھ ہی مکانات ڈھیر سارے ایک دوسرے سے ملے ہوئے موجود ہیں۔رش کا عالم تو خیر کیا کہیے پھر ٹریفک کی بہتات اتنی ہے کہ جو کاروباری ذہن کاشہری بھی ہو تو وہ اس گھمبیرتا سے عاجز آ جاتا ہے۔شہر
 اندرون اسی لئے جبس اور گرمی کا احساس ہوتا ہے۔جب عمارات حد سے زیادہ ہو جائیں تو تازہ ہوا کے رستے کی رکاو ٹیں بھی زیاد ہو جاتی ہیں۔اس لئے مکینوں کا دل قدرتی طور پر شہر کے باہر کی آب و ہوا کی طرف مائل ہو تاہے۔کتنے تو اندرونِ شہر سے بیرونِ شہر جا چکے اور کتنے ہی پر تول رہے ہیں۔اگر ان کے اپنے مکانات کی اچھی قیمت مل گئی تو وہ اس شاخ سے اڑ کر دوسری شاخوں پر جا بیٹھیں گے۔ شہر کے باہر اندرون ِ شہر کی بہ نسبت جائیداد سستی مل جاتی ہے۔لہٰذا لوگوں نے شہر کے باہر کے ماحول میں جو شورشرابے اور رش سے آلودہ نہیں ہے جا کر سکونت اختیار کر رکھی ہے۔اسی طرح ہوتا ہے۔شہر یونہی بستے اور پھیلتے ہیں۔کبھی پشاور مٹھی بھر میں آجانے والا شہر تھا۔مگر اب تو دور دور تک پشاور ہے اور جس طرف سر گھما کر دیکھو وہ جو گاؤں ہوا کرتے تھے اب آمد و رفت کی آسانی اور گاڑیوں او رموٹر سائیکلوں کے فراواں ہوجانے پر شہری حدود میں آ چکے ہیں۔شہر کے مضافات میں جو گاؤں تھے جہاں جانے کے لئے تانگے چلا کرتے تھے وہ اب گاؤں نہیں رہے۔ نئی ایجادات کی وجہ سے جہاں پوری دنیا ایک گاؤں بن چکی ہے وہاں ایک شہر اس پھیلاؤ اور سمٹاؤ کے آگے کیا وقعت رکھتا ہے۔جی ٹی روڈ ہے یا ورسک روڈ ہے یا پھر رنگ روڈ ہو یا کوہاٹ روڈ ہو۔ اگر یونیورسٹی روڈ ہو یا کینٹ ایریا ہو موٹر وے ہو ہر جگہ نئے کوچے نئی گلیا ں تعمیر ہو رہی ہیں۔اب تو اندرونِ شہر کی رش والی حبس زدہ فضا میں دل گھبرانے لگا ہے۔کسی کے دو اشعار یاد آئے ”آکسیجن کی کمی ہوتی ہے۔پھیپھڑوں کو دھوئیں سے بھرتا ہوں۔ اپنا گاؤں بہت یاد آتا ہے۔جب ترے شہر سے گزرتا ہوں“۔اگر کوئی بیرون شہر رہائش کئے ہوئے ہے اور وہ گاہے کسی کام کاج کی غرض سے اندرون شہر آ جاتا ہے تو اس کاکہنا ہے موسم تبدیل ہوگیا ہے۔اب گرمی گرمی سی محسوس ہوتی ہے۔ وہ اگر اپنے گھر کو سدھارے تو راستے میں بلڈنگ اور پلازوں کی سلسلہ وار قطار سے جان چھوٹے۔۔تب اس کو ایک قلبی طمانیت کا احساس ہوتا
 ہے۔شہری حدود سے نکلتے ہی تازہ ہوا کے جھونکے اس پر اپنی جان چھڑکتے ہیں صدقے واری جاتے ہیں پھر وہ جو سانس کی تنگی اندرون شہر محسوس ہو رہی تھی وہ کشادگی میں بدل جاتی ہے۔ہوا ٹھنڈی ٹھار ہو جاتی ہے۔کیونکہ دور دور تک پلازے اور عماراتی سلسلے نہیں ہوتے۔اس لئے بیرون شہر کی فضا بھی خوبصورت اور خوشگوار ہو جاتی ہے۔اوپن ایریا میں دل کو راحت ملنے لگتی ہے۔پھر بھلا ایسی حالت ہو توکون شہر کی گرم ہوا میں جانے کی تمنا کرے گا۔ ہاں اگر مجبوری ہے دکان وغیرہ ہو رشتہ داریا ں ہوں تو ان رشتوں کو نبھانے کے لئے شہر کے بیچوں بیچ جانا پڑتا ہے۔بمعہ فیملی کسی تقریب کا حصہ بن جانے کو یا کسی پروگرام میں فردِ واحد کی حیثیت سے جانا ٹھہر جائے۔شہر کے باہر فضا اسی لئے دلکش ہوتی ہے کہ وہاں پلازے زمین میں سے برآمد نہیں ہوئے ہوتے۔گویا آلودگی نہیں ہوتی۔جو شہرمیں ہے سب آلودگی کی کسی نہ کسی قسم تعلق رکھتا ہے۔شہر کے باہر فضا خالص ہوتی ہے۔اگرچہ کہ فی زمانہ اب تو آلودگی کا جن شہر کے باہر کھلم کھلا ایریا میں بھی اپنا خوف پھیلا رہا ہے مگر پھر بھی بغور دیکھا جائے تو پشاور کے اندرون اور بیرون میں اب بہت فرق ہے۔