(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
دنوں بعد گاؤں یاترا ہوئی‘ گاؤں جاؤں تو یہ ناممکن ہے کہ میں بابا دینا کی کٹیا کا چکر نہ لگاؤں‘ بابا دینا سائیں نذیر‘چاچا وریام‘ ماسٹر احمد بخش اپنی باتوں‘چٹکلوں سے حیران کردیتے ہیں‘ یہ سبھی عمر رسیدہ بزرگ ہیں ان کے اپنے اپنے ڈیرے اور ٹھکانے ہیں‘بابا دینا ان میں سے ایسا بابا ہے جس کی گفتگو سے کہیں کوئی ایسی بات مل جاتی ہے جو پہروں میرے حواس پر چھائی رہتی ہے ……اکیسویں صدی کے انسان کا کرب خود اسے بھی سمجھ نہیں آتا‘ زمانے کی ترقی کے باوجود انسان اندر سے کھوکھلا اور تنہا ہوا جارہا ہے‘ میں بابا دینا کے پاس بیٹھوں تو کوئی نہ کوئی سوال ضرور میری زبان پر آجاتا ہے۔بابا دینا کی عمر کوئی 90برس کے لگ بھگ ہے اس کی یادداشت بہت اچھی ہے آج بھی عینک کے بغیر وہ گزارہ کررہا ہے جب وہ اپنے زمانے کی باتیں سناتا ہے تو بندہ حیران وپریشان رہ جاتا ہے مثلاً نئی نسل تو یہ سن کر شاید یقین ہی نہ کرے کہ بجلی کے بغیر بھی گاؤں کے لوگ بڑی اچھی زندگی گزارا کرتے تھے‘کچے مکانوں میں بن دروازوں کے لوگ کسی خوف اور ڈر کے بغیر سکون سے سویا کرتے تھے گرمیوں میں چھتوں پر چارپائیاں ڈال کر سونا تو ہمیں بھی یاد ہے اپنا شعر یاد آرہا ہے۔
چاندنی اوڑھ کے سوجاتے چھتوں پر ہم لوگ
اور پھر دھوپ سے بیدار ہوا کرتے تھے
تمہید طویل ہورہی ہے‘بات بابا دینا کی ہورہی تھی میں نے جب بابے کو بتایا کہ ہمارے لاہور میں سموگ کا راج ہے تو کہا انسان جوں جوں ترقی کرتا جارہا ہے اپنی ہلاکت کے سامان بھی پیدا کررہا ہے شہروں میں سڑکوں پر دھواں دھار ٹریفک‘فیکٹریاں کارخانے‘ائرکنڈیشنر‘لوہے کی بھٹیاں علاوہ ازیں اینٹوں کے بھٹے تو ہیں ہی‘جلسے جلوسوں میں احتجاج کرتے ہوئے ٹائروں کو آگ لگا کر سڑکیں بند کرنے کا عمل کیا سب خود انسان کی ہلاکت کا سامان نہیں ہے‘بابا دینا بول رہا تھا تو مجھے یوں لگا ماحولیاتی آلودگی کے اسباب پر کوئی بہت بڑا دانشور لیکچر دے رہا ہے۔بابا بولے جارہا تھا۔یہ جو چھوٹا سا آلہ(موبائل)تمہارے ہاتھ میں ہے ناں‘یہ جدید صدی کی وہ دیمک ہے جو انسان کو تباہ کررہی ہے مگر ہمیں تو لمحہ لمحہ اپ ڈیٹ رہنا ہے تجسس‘دوسروں کے بارے میں جاننے کیلئے ہم دوسروں کی زندگیوں میں تانک جھانک کی فطرت سے نجات حاصل کرہی نہیں سکتے‘ یوں لمحہ لمحہ خبروں نے ہمیں بے سکون اور ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے انسان ہی انسان کا دشمن ہے بلکہ جنگلی درندے تو عموماً اپنے تحفظ اور خوف کے سبب انسانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں‘انسان بلا سوچے سمجھے بھی ایک دوسرے کا ’ویری‘ ہے بیٹا جی! ہمارے گاؤں میں جب بارش نہیں ہوتی تھی اور سبھی کسانوں کو بارش کی شدید طلب ہوتی تھی تو گاؤں کی مسجد میں بچوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا اور یہ کھانا کوئی ایک شخص تیار نہیں کراتا تھا بلکہ سارے گاؤں سے مانگی ہوئی ہر قسم کی روٹی اور لسی پر مشتمل ہوتا تھا‘ زیادہ تر مکئی اور باجرے کی روٹیاں ہوا کرتی تھیں‘جس روز بچوں کو کھانا کھلایا جاتا اور بعد میں بارش کی دعا کی جاتی شام تک کالی گھٹائیں آسمان پر چھا جایا کرتی تھیں اور پھر خوب بارش ہوتی‘آج ہماری دعاؤں میں خلوص نہیں رہا ہم بچوں سے مزدوری کراتے ہیں کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرتے ہیں ہمارا رزق خالص نہیں بندگی خالص کیسے ہوسکتی ہے؟ہم سب دنیاداری میں ’نکونک‘ ڈوبے ہوئے ہیں‘سیاست سے خدمت کا عنصر ختم ہوتا جارہا ہے۔ یہ جو ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں ان نادانوں کو یہ علم نہیں جب دھرتی پر سانس لینا دشوار ہوجائے گا تو تمہاری دولت طاقت اور اثر ورسوخ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ بات جاری تھی کہ مسجد سے اذان بلند ہوئی تو بابا اٹھ کھڑا ہوا۔میں کچھ دیر بعد آتا ہوں ابھی گاؤں میں ہوناں‘ ملاقات ہوتی ہے۔ بابا جاچکا تھا میں ابھی سڑکوں پر ٹریفک کے اژدھام میں پھنسا ہوا تھا واقعتا لاہور میں اب سانس لینا دشوار تر ہوگیاہے‘ سوچتا ہوں ہمارے ہنگامے چھوڑ کرگاؤں کی شفاف آب وہوا میں بس جاؤں جہاں اگرچہ شہر کی ساری سہولتیں موجود ہیں مگر ابھی کچھ روایات اقدار اور لوگ باقی ہیں‘ہماری حکومت سموگ اور ڈینگی کے سامنے اسلئے بے بس ہے کہ سختی سے عملدرآمد نہیں ہوتا اب بھی فصلوں کی جڑوں کو جلا کر کھیت دوبارہ فصل کیلئے تیار ہوتے ہیں نہر پر اچانک نظر آتا ہے کسی نے سوکھے پتوں اور گھاس کو آگ لگا دی ہے‘دھواں اٹھ رہا ہے درخت کاٹے جارہے ہیں۔ ملاوٹ ہوتی ہے اور یوں یہ سلسلہ کبھی نہیں رکھتا‘واقعتا انسان خود انسان کا دشمن بن گیا‘حرص ہوس اور حسد میں وہ خود بھی ہلاک ہورہا ہے اور دوسروں کو بھی ہلاک کررہا ہے‘ہے کوئی اس کا سدباب کرنے والا؟۔