آج دنیا جہاں دیگر کئی معاشی مشکلات کا شکار نظر آ رہی ہے وہاں بیروزگاری نے بھی اسے بری طرح گھیر رکھا ہے۔ امریکہ جیساملک جسے کل تک land of opportunitiesکہا جاتا تھا آج اس کے ہاتھوں مجبور ہے اور امریکی آجروں نے پچھلے ماہ 77ہزار ملازمتیں کم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کل تک غریب ممالک کے بے روزگار نوجوان معاش کی تلاش میں مغربی ممالک کا رخ کیا کرتے تھے جس کے حصول کیلے ان کی مائیں اپنا زیور اور جمع پونجی تک فروخت کر کے ان کے لئے زاد سفر کا بندوبست کیا کرتی تھیں اب اگر امریکہ جیسا مالی طور پر آسودہ ملک خود بے روزگاری کا شکار ہو رہا ہے تو غریب ممالک کی بے روزگار لیبر فورس کا کیا بنے گا۔اس جملہ معترضہ کے بعد چند دیگر اہم تازہ ترین خبروں پر ایک طائرانہ نظر ہو جائے تو بے جا نہ ہو گا۔پاکستان کے سابق سفارت کاروں اور خارجہ پالیسی کے مبصرین نے چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کو اہم پیش رفت قرار دیا ہے اور اس کے نہ صرف مشرقِ وسطی بلکہ پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ پاکستان کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تاریخی اعتبار سے قریبی تعلقات رہے ہیں، اس لئے توپاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یہ پیش رفت خطے اورا س سے باہر امن و استحکام میں معاون ثابت ہوگی۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس پر مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کے مسلم دنیا اور پاکستان پر دور رس اثرات ہوں گے۔اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق مندوب ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی اہم سفارتی پیش رفت ہے جو کہ خطے کے لئے گم چینجر ثابت ہوگی۔ان کے
بقول ایران سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری سے پاکستان کے لیے سفارتی راہ ہموار ہوگی جب کہ اسلام آباد تہران سے اپنے تعلقات کو بڑھا سکے گا جس کے ضرورت بھی ہے۔عالمی امور کے ماہرین ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کو ایک بے مثال تاریخی پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کا معاہدہ چین کے صدر شی جن پنگ کی کوشش سے ہوا ہے۔ اپنے مشترکہ بیان میں ریاض اور تہران نے اس اقدام پر چین کی قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے۔دوسری جانب وائٹ ہاس میں قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن کو معاہدے کی اطلاعات پر تشویش ہے لیکن یمن میں جنگ کے خاتمے اور مشرقِ وسطی میں کشیدگی کی کمی کے لیے کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔مبصرین سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی میں چین کے ثالثی کے کردار کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے بیجنگ کا امن کے لئے عالمی کردار سامنے آ رہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کے کردار سے چین نے خود کو امن کے قیام کے لئے عالمی رہنما ثابت کیا ہے۔ ماضی میں امن کے حوالے سے یہ کردار امریکہ ادا کرتا تھا۔ اب چین بھی عالمی قائد کے طور پر سامنے آچکا ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین اور امریکہ کے طرز عمل میں واضح فرق ہے،
امریکہ عالمی تنازعات میں اضافہ کرکے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے جبکہ چین عالمی تنازعات کو ختم کرکے امن کی بحالی کے ذریعے ترقی اور تجارت کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔جس سے افریقہ، ایشیاء اور یورپ سمیت پوری دنیا کے ممالک استفادہ کرسکیں گے اور یوں بھوک و افلاس جیسے عالمی مسائل سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے‘پاکستان بھی خطے میں امن و خوشحالی کیلئے کردار ادا کرتا آیا ہے اور چین کے عالمی منظر نامے پر مزید ابھرنے سے پاکستان کا یہ مقصد آسانی سے حاصل ہو سکے گا۔ سی پیک جیسے منصوبے کے باعث افغانستان سمیت وسطی ایشیائی ممالک پاکستان کے ساتھ جڑ سکیں گے جس کے دور رس نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ خیبر پختونخوا کی 11 فیصد آ بادی منشیات کی لت میں مبتلا ہے۔ چرس افیون ہیروئن سمیت تمام نشہ آ ور منشیات کی جڑ تمباکو ہے اور آج کل تو نشئی افراد کا پسندیدہ نشہ آ ئس ہے جس میں اس ملک کی نئی نسل تیزی سے مبتلا ہو رہی ہے جب تک اس کو فروخت کرنے والے دکانداروں کی دکانوں اور ہوٹلوں کو سر بمہر کر کے انہیں بحق سرکار ضبط کر کے نیلام عام نہ کیا جائے گا اس لعنت سے لوگوں کی جان خلاصی نا ممکن ہے۔ اس قسم کی منشیات کا پھیلاؤ اس ملک کی نئی نسل اور اس کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے اس ضمن میں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اس ملک کا عام آدمی خصوصا ًجوان نسل بیروزگاری کے باعث بھی ذہنی طور پر پریشان ہو کر منشیات کی طرف راغب ہو رہی ہے غربت بھی اس کہ ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ لہٰذا اگر ملک کی معیشت میں انقلابی اصلاحات لا کر ملک کے عام آدمی کی زندگی کو آ سودہ حال بنایا جائے تو منشیات سمیت کئی برائیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ سخت سزاں سے بلا شبہ آپ اس لعنت کو کم تو کر سکتے ہیں پر اس کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے اس کے اسباب کا خاتمہ ضروری ہو گا۔