کسی بھی ملک میں ایک نیا ادارہ قائم کرنا یقینا مشکل ہوتا ہے،کیونکہ نہ صرف اس مقصد کیلئے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کی جاتی ہے بلکہ ساتھ ساتھ ایسے افراد کا چناؤ بھی اہم ترین مرحلہ ہے جو مطلوبہ اہداف کے حصول کی اہلیت رکھتے ہوں، پاکستان میں ٹیلی ویژن سروس کا آغاز بھی ایسا ہی ایک مرحلہ تھا جس میں کم وسائل کیساتھ بڑے اداروں کا مقابلہ بھی کرنا تھا پی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ پی ٹی وی کے ابتدائی دن بہت ہنگامہ خیز تھے‘ اس سے وابستہ ہر شخص کام کرنے کی دھن میں مصروف نظر آتا تھا مجھے ابتدائی چند دنوں میں ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ یہ ادارہ ملک کے عام محکموں سے مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سارا سٹاف نسبتاً کم عمر تھا‘ یہ لوگ میڈیا کے مختلف شعبوں سے آئے تھے‘ اخبارات‘ نیوز ایجنسی‘ فلم انڈسٹری‘ ریڈیو‘ آرٹس کونسل وغیرہ یا پھر تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کرکے پہلی بار ملازمت کررہے تھے ان سب کا انداز فکر اور
رجحانات بڑی حد تک ایک ہی طرح کے تھے۔ دوسری بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ کہ اس دفتر میں ’افسر شاہی‘ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ ہر شخص دوسرے کو اس کے نام سے پکارتا تھا پھر یہ بھی کہ آزادی اظہار کا رواج تھا۔ کسی کو بھی صاف اور سچی بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہوتی تھی‘ پائلٹ ٹیلی ویژن کی ایک مختصر سی ٹیم تھی جس میں چند پروڈیوسر اور انجینئر دو چار نیوز رپورٹرز اور گنا چنا چھوٹا سٹاف۔ سب کو صرف ایک ہی دھن سوار تھی کہ نئے نئے‘ دلچسپ اور معیاری پروگرام تشکیل دیں‘ اس کام میں وہ غلطیاں بھی کرتے تھے اور پھر انہی غلطیوں سے سیکھتے بھی تھے۔
اسلم اظہر جو اس ٹیم کے انچارج تھے کہا کرتے تھے ہم نے آن جاب ٹریننگ حاصل کی۔ آن ایئر غلطیاں کی ہیں مگر ساتھ ہی ہمیں یہ فائدہ بھی تھا کہ ہمارے ناظرین بھی اسی قدر نئے تھے‘اسلئے انہیں غلطیوں کا احساس نہیں ہوتا تھا‘جہاں تک پروگراموں میں تنوع کا معاملہ تھا تو ہم سب بڑے فخر سے کہتے تھے ’ہم ہر وہ پروگرام کرتے تھے جو بی بی سی کرتا ہے۔‘ پی ٹی وی کے پروگراموں میں خبرنامے‘ حالات حاضرہ کے ٹاک شو خاص اہمیت رکھتے تھے‘ موسیقی اور ڈرامے تفریحی پروگراموں میں سب سے اول تھے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے علاوہ دوسری نوعیت کے پروگراموں کو شیڈول میں کوئی جگہ نہیں دی جاتی تھی۔ معلوماتی‘ ثقافتی اور علمی پروگرام بھی حسب ضرورت تھے۔ ایسے پروگراموں کی تعداد تو کافی تھی مگر صرف چند ایک کے ذکر سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
ابتدائی دور کے ٹیلی ویژن والے کیا کیا کرتے تھے۔ ان دنوں سب سے زیادہ زور کوئیز پروگراموں پر تھا چونکہ یہ نہ صرف معلومات بلکہ تفریح کا ذریعہ تھے۔
“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ کسی بھی شعبے میں آغاز یا ابتداء کرنے میں حائل مشکلات ہیں جن پر ٹیم ورک اور کام کے ساتھ لگن کے ذریعے ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔وطن عزیز کے قیام کے وقت جن مشکلات کا سامنا تھا ان کا اندازہ ان ہی افراد کو ہوسکتا ہے جنہوں نے ان مشکلات کا مقابلہ کیا اور ان پر ہمت اور جذبے کے بل پر قابو پایا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ وطن عزیز کے اداروں کی دنیا میں مثالیں دی جانے لگیں، جن میں پی آئی اے اور پی ٹی وی جیسے ادارے شامل تھے۔ پی آئی اے نے نہ صرف خود کو ایک عالمی معیار کی ائرلائن کے طور پر منوایا بلکہ دیگر دوست ممالک کو بھی ائرلائنز قائم کرنے میں مدد فراہم کی جن میں چین قابل ذکر ہے جس نے اپنی ائیر لائن قائم کرنے کیلئے پاکستان سے مدد طلب کی تھی۔