جمہوری اسلامی ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونے کیلئے معاہدے کو ’بڑی پیش رفت‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے ’مشرق وسطیٰ‘ اور اس سے ملحقہ خطے پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے‘ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق ’عوامی جمہوریہ چین‘ کی مدد سے ممکن ہوا ہے جس نے مسلم دنیا کے دو طاقتور ممالک کو دو ماہ میں ایک دوسرے کے اس قدر قریب کر دیا کہ دہائیوں پر پھیلی غلط فہمیاں ختم ہو گئی ہیں اور سال 2001ء کے سیکورٹی معاہدے کیساتھ دونوں ممالک تجارت اور دیگر تعلقات کو فروغ دینے کیلئے 1998ء کے معاہدے کو بحال کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں‘ دونوں ممالک کی دوستی ہونے کے ساتھ ہی پاکستان نے ایران کیساتھ گوادر بندرگاہ کیلئے 100 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا معاہدہ کیا ہے اور مستقبل قریب میں گیس پائپ لائن کی تکمیل سمیت مزید بجلی خریداری کے معاہدے بھی ہو سکتے ہیں جن کی مدد سے سستی گیس و بجلی میسر آئیگی۔ایران سعودی سفارتی و تجارتی تعلقات کی بحالی کیا معنی رکھتی ہے اور اِس سے درپردہ کسے زیادہ فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے گا‘ یہ نکتہ
خصوصی توجہ کے لائق ہے‘ اِس پورے منظرنامے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ دو مسلم ممالک کو قریب لانے کیلئے چین‘ نے ثالثی کا کردار ادا کیا ہے‘ توجہ طلب ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت سے بیجنگ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا جیسا کہ چین اپنے معاشی اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہا ہے تو اِسے خلیجی ممالک سے تیل و گیس کی بلا تعطل فراہمی کی ضرورت ہے لیکن اگر خطے کے ممالک ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھیں اِیسی صورت میں چین کیلئے خلیجی وسائل سے خاطرخواہ استفادہ ممکن نہیں رہتا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں کمی چین کیلئے خلیجی خطے کیساتھ اپنے تجارتی روابط مزید گہرا کرنے کی راہ ہموار کرے گی۔ یہ معاہدہ ایران
کیلئے بھی موزوں ہے‘ جسے عالمی اقتصادی پابندیوں کے اثرات سے نکلنے میں مدد ملے گی‘ سعودی عرب کیلئے یہ مفاہمت ’تزویراتی تبدیلی‘ ہے۔ امریکہ کا طویل مدتی اتحادی رہنے کے بعد ریاض نے کثیر قطبی دنیا میں چین کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے‘یہ تبدیلی حالیہ برسوں میں متعدد وجوہات کی بنا پر ضروری ہو گئی تھی۔ مذکورہ معاہدے سے نہ صرف ایران اور سعودی عرب کو قریب آئیں گے بلکہ چین کو مشرق وسطیٰ کی سیاست میں قدم جمانے کا موقع بھی دیا گیا ہے جبکہ امریکہ اور اسرائیل چاہتے تھے کہ سعودی عرب چین کی بجائے مشرق وسطی کی بدلتی ہوئی صورتحال میں اُس کا اتحادی رہے‘ پاکستان کے نکتہئ نظر سے بھی ایران سعودی معاہدہ نہایت ہی مثبت پیش رفت ہے‘پاکستان‘ سعودی عرب اور ایران چین کی زیر قیادت بننے والے ایک نئے بلاک کا حصہ بن سکتے ہیں بلکہ پاکستان نے افغانستان کے تلخ تجربات کے بعد ایسی عالمی سیاست کا فریق بننے سے معذرت کی ہے اور اگر اِس بات کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور
و مرکز قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان نے ہمیشہ طاقتور ممالک کیساتھ اپنے تعلقات رکھنے پر زور دیا ہے لیکن بدلتے ہوئے منظر نامے کے ساتھ‘ اِس بات کا امکان ہے کہ امریکہ پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے مراعات کی پیشکش کرے اور اگر ایسا ہوا تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان دفاع‘ انسداد دہشت گردی اور تجارت کے حوالے سے متعدد مذاکرات ہوئے ہیں۔ اگلے ہفتے دونوں ممالک توانائی کے شعبے میں تعاون اور موسمیاتی تبدیلیوں پر بات چیت کریں گے جبکہ پاکستان نے اِس بات کا بھی فیصلہ کیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض کی قسط وصولی میں تاخیر ختم کرنے کیلئے امریکہ سے بات چیت کرے‘ مشرق وسطیٰ کے تبدیل ہوئے منظرنامے میں جہاں ایران و سعودی عرب ایک دوسرے کو دوست ممالک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور چین اُن کی پشت پر کھڑا ہے پاکستان کیلئے اِس بدلتی ہوئی صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کا نادر موقع صرف اُسی صورت ہو سکتا ہے جبکہ ملک میں سیاسی استحکام کا دور دورہ ہو۔