کیا اقوام متحدہ کا انجام بھی لیگ آف نیشنز جیساہوگا؟

پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کو کسی اور عالمی جنگ سے بچانے کے لئے لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا پر دنیا نے دیکھا کہ لیگ آف نیشنز اپنا مطلوبہ مقصد حاصل نہ کر سکی اور اس کے قیام کے کچھ ہی عرصے کے بعد دنیا دوسری جنگ عظیم کی دلدل میں پھنس گئی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا اور اس کے بانی مبانی ممالک کی بھی منشا یہ تھی کہ دنیا کو تیسری عالمگیر جنگ سے بچایا جائے لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی کئی اور وجوہات بھی ہوں گی پر سب سے بڑی وجہ جرمنی میں ہٹلر اور اٹلی میں بالترتیب ہٹلر اور مسولینی جیسے افراد کا اقتدار میں آ نا تھا۔ ہٹلر پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے زخم چاٹ رہا تھا اور اس کے نزدیک جرمنی کے مخالفین نے پہلی جنگ عظیم کے بعد treaty of Versailles میں جرمنی کے ساتھ زیادتی کی تھی وہ بدلے اور انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ چنانچہ اٹلی اور جاپان کے ساتھ  مل کر اس نے دوسری جنگ عظیم میں جس روئیے  کا مظاہرہ کیا اس کی دنیا میں کم ہی مثال ملتی ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے پر یہ ایک حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ نے اپنی کئی خامیوں کے باوجود اب تک دنیا میں امن کے قیام کو کافی حد تک سنبھال رکھا ہے اور کئی جگہوں پر اقوام متحدہ کے امن مشن کی افواج کو بجھوا کر ممکنہ جنگوں کو پھیلنے سے روکا ہے اسی طرح دنیا کے کئی قحط زدہ اور قدرتی آ فتوں سے متاثرہ علاقوں میں بر وقت امدادی کاروائیاں کر کے وہاں کی آبادیوں کو مکمل تباہی سے بچایا ہے مانا کہ مشرق وسطی اور کشمیر سمیت کئی مسائل کے حل میں وہ کامیاب نہ ہو سکا پر بحیثیت مجموعی اس کی کارکردگی لیگ آف نیشنز سے بدرجہا بہتر ثا بت ہوئی ہے۔ آج وقت کا تقاضہ ہے کہ امریکہ روس اور چین اس بات کا احساس کریں کہ اگر اب کی دفعہ دنیا کسی عالمگیر  جنگ کا شکار ہوتی ہے تو کرہ ارض  سے انسانوں کامکمل صفایا ہو جائے گا۔  کیونکہ آج ایک سے زیادہ کئی ممالک کے پاس مہلک ترین کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے، پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کے وقت اٹیمی ہتھیاروں کی اس قدر بہتات نہ تھی جو آج ہے۔آج دنیا کو جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے نیلسن مینڈیلا، فرانس کے جنرل ڈیگال، امریکہ کے روزویلٹ اور ابراہام لنکن،  چین کے چو ائن لائی اور تنزانیہ کے جولیس نیارارے جیسے ٹھنڈے دماغ رکھنے والے عالمی رہنماؤں کی ضرورت ہے نہ کہ مودی، پیوٹن۔ ڈونلڈ ٹرمپ، خروشیف،ہٹلر، مسولینی اور کم جونگ ہن جیسے گرم مزاج  لیڈروں کی۔اگر کرہ ارض کو اٹیمی ہتھیاروں کے استعمال سے مکمل تباہی سے بچانا ہے تو تمام بڑے ممالک کے رہنماؤں کو گرم مزاجی کے خول سے باہر نکل کر تخفیف اسلحہ کرنا ہو گا۔ ترقی پزیر ممالک میں غربت کو ختم کر کے وہاں بسنے والی آبادی کو صحت اور طب کے میدان میں دل کھول کر امداد فراہم کرنا ہوگی اور ان کی زرعی پیداوار کو بڑھانے کی طرف خصوصی توجہ دیناہوگی۔