ہمارے ہاں ٹریفک کو رواں دواں رہنا چاہئے۔ ہمہ وقت اور ہرروز ایسا ہونا چاہئے۔ کیونکہ اب یہ وہ شہر نہیں جو کبھی جگنو کی طرح ایک مٹھی میں گِھر جاتا تھا۔ اب تو یہ پھیل رہا ہے اور مسلسل پھیل رہا ہے۔دن کو تو ٹرکوں کا داخلہ شہر میں ممنوع ہے۔مگرحیران ہوں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ شاید سرکاری افسروں نے اپنی پالیسی بدل لی ہے۔اب دن کو بھی یہ ہاہاکار مچے گی۔ حالانکہ مین سڑکوں کے باہر شام سے پہلے ٹرک ایک لائن میں کھڑے ہوتے ہیں۔جونہی ان کے داخلہ کا وقت ہوتا ہے یہ اندرونِ شہر بار برداری کرتے ہیں۔ مگر ایسے سین پارٹ بھی دیکھے ہیں کہ ٹرک جیسی چیز جو سڑک پر آ جائے تو کسی اور ٹریفک کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ ٹرک خاص اندر جا کر شہر کے ایک دروازے کے باہر یوٹرن سے موڑ کاٹ رہا تھا۔جونہی ٹرک نے اپنے آپ کا زاویہ تبدیل کیا جھٹ سے رواں دواں ٹریفک بلاک ہوگئی ۔چونکہ ٹرک ہے اور ٹرک بڑا ہوتا ہے۔جب تک یہ موڑ کاٹے گا او رکوئی آگے نہیں جا سکے گا۔ سب گاڑیاں ایک کے پیچھے دوسری لگ کر ہارن پہ ہارن بجانے لگیں۔مگر ڈرائیور نے بے فکری اور ڈھٹائی سے اپنا مزے کے ساتھ موڑ کاٹا اور بات بنی وگرنہ اس شہر کی تنگ سڑکوں پر اتنی گنجائش تو اب نہیں رہی کہ یہ بڑی ٹریفک کے بوجھ کو برداشت کرسکیں۔ایک تو یہاں جینا محال ہو چکا ہے۔ باہر نکلو تو ٹریفک میں الجھنے کا بھر پور چانس کہیں بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ آپ جو پلاننگ کر کے نکلے وہ منصوبہ بندی چوپٹ رہ جائے گی۔ اس وقت جب ٹریفک الجھاؤ کہیں نظر آیا تو اس میں پھنس کر آدمی کہیں کا نہیں رہتا۔ آگے جانے کے قابل رہتا ہے او رنہ ہی پیچھے جانے کی استطاعت ہوتی ہے۔پھر مزہ یہ کہ گاڑی میں سوار ہونے کی بات بھی نہیں اس ٹریفک خلجان میں پیدل بھی اپنی جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔شہر میں ایسے مقامات ہیں کہ جہاں روزانہ اور گاہے گاہے ٹریفک لازمی بلاک ہو تا ہے۔مگر اس پر اگر کہیں ٹرین آ رہی ہو تو بس لیجئے مزے۔پھاٹک بند ہوجائے گا او رتادیر بند رہے گا۔ بندہ جیسے زندان میں بند ہو جائے۔ ایسے پھاٹک کے دروازوں کے آر پار عوام ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں مگر ایک ان کے درمیان میں یہی دو پٹریاں حائل نظر آتی ہیں۔ دو اطراف وہ رش ہوتا ہے کہ بندہ کبھی پانچ کبھی دس منٹ کے انتظار کرنے کو دھر لیا جاتا ہے۔ جیسے پنجرے کی تیلیوں میں کوئی پرندہ قید ہو اور یہ نو گرفتار اس پنجرے کی تیلیوں کے ساتھ الجھے اورپھڑپھڑائے او رآزاد ہونے کی کو شش کرے۔ مگر جو پھنس جاتے ہیں وہ تو اپنی مجبوری کے کارن یہاں پھنسے ہوتے ہیں۔کیونکہ ان کے لئے یہی راستہ مناسب ہو تا ہے۔جس کی وجہ سے انھوں نے یہ راہ اختیار کرنا ہوتی ہے۔لیکن جو اس رش کی ٹریفک ٹرین کے آخر میں آتے ہیں وہ جلدی سے دوسری جانب جو ابھی تک خالی ہوتی ہے موڑ کاٹ کے جی ٹی روڈ کے اوپر پل سے نکل بھاگتے ہیں۔کیونکہ یہاں تو ہر آدمی جلدی میں ہے۔اس سے انتظار نہیں ہوتا۔ انتظار ہوتا ہی تکلیف دہ ہے۔خواہ جیسا بھی ہو مگر ٹریفک کا انتظار تو شہر میں کسی کو بھاتا نہیں۔دراصل ہمارے ہاں انتظام او ربندوبست کا فقدان ہے‘پلاننگ ہوتی ہے مگر دو روزہ منصوبہ بندی تیسرے دن ناکام ہو جاتی ہے۔ایک سڑک کو کسی پل کے نیچے سے بند کردیتے ہیں کہ اس راہ سے اب موڑ کاٹنا خلاف ِ قانون ہوگا۔مگر دو ایک دن تک ٹریفک کا رش اگر اس ممنوعہ مقام پر نہیں ہوتا تو دوسری کسی اور جانب اس کا رخ بدل جاتا ہے۔پھر ان کو خیال آن گھیرتا ہے اور یہ لوگ دوبارہ سے وہی موڑ سیمنٹ کے بلاک ہٹا کر کھول دیتے ہیں۔ سڑکوں پر رش کا حساب یہی ہے کہ گھر کی ایک نالی بند ہو جائے تو باقی تمام نالیاں بھی بند ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ بند والی نالی کا پانی دوسری نالیوں میں سے ہوکر نکلنے کو بیتاب جو ہوتا ہے۔جس کا نتیجہ ایک ابتری کی صورت میں نکلتا ہے۔ہمارے ہاں کی سڑکوں پر بھی یہی اودھم مچ جاتا ہے۔کسی بھی وجہ سے کبھی ایک سڑک کوبند کردیں تو دوسری سڑکیں خود بخود ٹریفک بلاک کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان کو معلوم تو ہوجاتا ہے کہ اگر ٹریفک بلاک ہے تو کہیں کوئی سڑک بند کر دی گئی ہوگی۔اتنا تو سمجھ میں آ جاتا ہے مگر یہ سمجھنے اکثر قاصر ہوتے ہیں کہ سڑک کیوں بند ہے۔اس لئے شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کا حال ابتر ہے۔اس روانی کو ہمہ وقت بحال رہنا چاہئے۔ٹریفک ہو او رخوب ہو یہی تو اس شہر کا حسن ہے کہ یہ ایک شہر ہے کوئی ویران گزرگاہ نہیں ہے۔شہر تو اچھے لگتے ہیں مگر ٹریفک کے رواں دواں بہاؤ کے ساتھ ان کاحسن آنکھوں میں دیدہ زیبی پیدا کرتا ہے۔آپ ہی کہئے کہیں ایسی بھی ابتری اور ہوگی جو اس وقت اس شہر کے ماتھے کا جھومر نہیں اس کا دردِ سر بن جاتی ہے۔