موسمیاتی تبدیلی کا بھلا اس سے اور بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ امسال بہار کے موسم کو سردی کا موسم کھا گیا ہے۔ فروری اور مارچ کے مہینے بہار کے موسم کے مہینے ہوا کرتے تھے پر ان دو مہینوں میں اب تک اس سال ہم نے بہار کی رمق تک نہیں دیکھی۔ گز شتہ روز سے وفاقی دارالحکومت اور ملک کے شمالی علاقوں میں بارشوں کا جو نیا سلسلہ شروع ہواہے اس سے رمضان المبارک کے ابتدائی چند دن تو موسمی لحاظ سے شاید خوشگوارہو جائیں پر ان بارشوں سے کھڑی فصلوں کا کافی نقصان پہنچ سکتاہے اور تشویش کی بات یہ ہے کہ رمضان المبارک کے بعد جب مون سون کی بارشوں کا وقت آئے گا تو اس کے ساتھ ہی گرمی کی شدید حدت سے برف کے تودے پگھلنے کی پیشگوئی بھی ہے جس کی وجہ سے ملک میں شدید سیلابوں کا بھی خطرہ ہے۔ ٹمبر مافیا کے ہاتھوں درختوں کی بے دریغ کٹائی سے ان ماحول دشمن عناصر نے اربوں روپے تو کمائے پر قوم اور ملک کو سیلابوں کی تباہی سے ہمکنار کر دیاہے۔ ظاہر ہے کہ جن
علاقوں میں سبزے کا فقدان ہو گا وہاں سیلابوں کا خطرہو گا۔ کاش کہ ہم نے چین سے یہ سبق بھی سیکھ لیا ہوتا کہ جس طرح وہاں درخت کاٹنا ناقابل معافی جرم ہے ہم نے بھی درخت کاٹنے والے کے لئے عبرت ناک سزا مقرر کی ہوتی۔ چین میں اگر بہ امر کسی شدید مجبوری کے کسی درخت کے کاٹنے کی ضرورت ہوتی ہے تو درخت کاٹنے والے پر یہ لازم ہو جاتاہے کہ وہ اس کے بدلے دو نئے پودے لگائے گااور پھر ان کی اسوقت تک آ بیاری بھی کرے گا کہ جب تک وہ شجر نہیں بن جاتے۔کیا ہمارے ارباب اقتدار اس قسم کا قانون پاس کر کے اس پر سختی سے عمل
درآمد نہیں کر سکتے تھے،ہم نے ملک میں سبزے کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے وہ اپنے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔کیونکہ اس ماحول میں ہی ہم نے رہنا ہے ایسے میں اگر ماحول صحت دوست نہ ہو اور اس میں ایسی مضر صحت گیسز اور دیگر اجزاء شامل ہوں جو انسانی زندگی کیلئے زہر ہوں تو کیا ایسا ماحول اپنی آنے والی نسلوں کو دینا دانشمندی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ماحول کو جو نقصان پہنچا ہے وہ صنعتی ترقی کے دور میں ہی پہنچا ہے یعنی ایک طرف انسانی زندگی کو آسان بنانے کے لئے طرح طرح کی مصنوعات تیار ہونے لگیں تو ساتھ ہی ان ہی کارخانوں کے ذریعے مضر صحت دھواں بھی ماحول کا حصہ بننے لگا جس کے نتیجے میں طرح طرح کی بیماریاں پھیلنے لگی اور ساتھ ہی زمین کی حدت میں اضافہ ہونے کی صورت میں موسمیاتی تبدیلی کا عمل بھی تیز ہوگیا اور آج کل عالمی برادری کے سامنے یہ ایک چیلنج کی صورت میں موجود ہے۔جس کے لئے ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں آپس میں برسرپیکار ہونے کی بجائے عالمی برادری کو درپیش چیلنجز کا مل کر مقابلہ کریں‘اس جملہ معترضہ کے بعد بعض دیگر اہم موضوعات پر چند باتیں اگر لکھ دی جائیں تو وہ بے جا نہ ہوں گی۔ ایک عرصے سے ہم ملک میں لینڈ ریکارڈ کے کمپیوٹرائزیشن کی باتیں سن رہے ہیں پر عملاً اس ضمن میں کوئی واضح صورت حال سامنے ابھی تک نظر نہیں آئی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس سمت میں اب تک کونسے ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور ان سے صورت حال میں کس قدر بہتری آئی ہے اس ضمن میں تمام صوبائی حکومتیں صوبائی دارالحکومتوں میں پبلک سیمینار منعقد کروائیں جن میں عوام کو کھل کر بتایا جائے کہ کمپیوٹرائز یشن سے کہاں اور کس قدر عوام کی داد رسی ہوئی ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ایک مستند قسم کا سروے یہ جاننے کیلئے بھی کیا جائے کہ سابقہ فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے فاٹا کے عام باسیوں کو جو توقعات تھیں کیا وہ پوری ہوئی ہیں۔