وہ ایک خاتون تھی‘ رکشہ میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ایمرجنسی میں اس کو بیٹی کے گھر پہنچنا تھا۔ مگر وہ اس کشمکش میں خود ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لہولہان ہو کر پہنچ گئی۔ہشت نگری کے گوداموں میں رات کو ٹرکوں سے مال اتارا جانا تھا۔ ٹرک پیچھے کی طرف آرہا تھا۔ وہ رکشہ میں سوار تھی۔ رکشہ ڈرائیور نے جلدی میں بجائے اس کے انتظار کرے وہ ٹرک کے عقب میں گنجائش پاکر نکلنے لگا۔اسی کیفیت میں وہ سڑک کے الٹے کنارے پر گٹر کے دھنسے ہوئے ڈھکن میں اگلے ٹائر سمیت جا پڑا۔ جس کی وجہ سے اس خاتون کا سر رکشہ کے اندر اس کے سامنے آئینے کے کونے سے جا ٹکرایا۔ سواری کو احساس نہ ہوا کیونکہ چوٹ گرم تھی۔مگر وہ سر سے پاؤں تک لہو میں نہا گئی تھی۔ رکشے کے اگلے ٹائر کا راڈ ٹوٹ گیاتھا۔خون کی بہتی لکیروں کے درمیان میں سے اس نے دیکھا کہ راہ گزرنے والے اس حادثے کی ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ کوئی اس کے قریب نہیں آ رہا تھا۔ وہ گھبرائی نہیں۔ مگر اس موقع پر عورت ذات اکیلی کیا کرتی۔ اس نے کسی کو مدد کے لئے ہاتھ دینے کی کوشش کی مگر سب پیچھے ہٹ گئے۔ ایک موٹر سائیکل وہاں سے گزرا۔ اس کے ساتھ بائیک کی ٹینکی پر بیٹھی ہوئی دو بچیاں بھی تھیں۔وہ بائیک سے اُترا اور ہمت کر کے اس خاتون کو بہتے ہوئے لہو کے ساتھ رکشہ میں بٹھایا۔وہ سر سے پاؤں تک خون میں نہا چکی تھی۔ مگر پھر بھی گھبرائی نہیں۔کوئی اور ہوتا تو جان سے نہ جاتا کومہ میں ضرور چلا جاتا۔بائیک سوارنے اس کو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ تک پہنچادیاتھا۔ ہر چند اس کے ساتھ بائیک کا بوجھ تھا اور پھروہ دوننھی بچیوں کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔ اس نے خاتون کے گھروالوں کو فون پر اطلاع دی۔ وہاں گھر میں ایک الگ قسم کی ہیبت ناک صورت حال چھانے لگی۔کیونکہ اس نے کہا خاتون ٹھیک ہے بس آپ جلدی سے ایمرجنسی وارڈ پہنچیں۔ اس کے اس جملے سے خاتون کے لواحقین خوفزدہ ہوئے کہ جانے حادثے میں کیا کچھ ہو چکا ہے۔ اب اور آگے کیا ہوگا۔یہ کہیں تسلی دینے کے لئے تو ایسا نہیں کہہ رہا۔گھر والے ایک رش کی صورت میں یہاں وہاں گھروں سے نکل کر ہسپتال کے بیڈپر زخمی خاتون کے قریب پہنچے تو بہو بیٹیوں یہ لہو لہو کپڑے اور خونیں منظردیکھتے ہی
سٹپٹاکر رہ گئیں کہ اب کیا ہوگا۔مگر مریض نے کہا میں ٹھیک ہوں کچھ بھی نہیں ہوا۔ناک کے اوپر سے اس کے ماتھے کی جلد اندر سر کی ہڈی تک کٹ گئی تھی۔ مگر وہ گھبرائی نہیں۔ کیونکہ خون کا عطیہ دینے والے کو سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنا خون بہہ جانے سے گھبراتا نہیں ہے۔جی ہاں وہ میری اہلیہ تھیں۔ جس نے پچاس سے زیادہ مرتبہ خون کا عطیہ دے رکھا ہے۔شاید خواتین میں اس سے زیادہ کسی نے خون نہ دیا ہو۔وہ خون کے عطیہ کے حوالے سے کئی مرتبہ ٹی وی پروگراموں اور ریڈیو اور ایف ایم پر بھی آ چکی ہیں۔میرا جو کہنے کا مقصد ہے وہ کچھ اور ہے قابل ِ غور ہے۔ اس لئے کہ پچھلے دنوں کسی خاتون کو چھریوں کے پے درپے وار کے زخمی کر دیا گیا۔اسے سرِ عام پڑے کسی نے اٹھایا نہیں۔ وہ کبلبلاتی رہی تلملاتی رہی تڑپی اور کراہتی رہی۔مگر وہاں تماش بین کھڑے اس کی اس حالت ِ غیر کے مناظر اپنے موبائل کے مووی کیمرے میں زد کوب کر رہے تھے۔یہ ویڈیو بناتے رہ گئے اور اس خاتون کو آخرِ کار کسی نے ہسپتال تک پہنچایا مگر وہ موت کے منہ میں چلی گئی۔اگر موویاں نہ بنتیں اوراس کو بر وقت طبی امداد مل
جاتی تو شاید اس کی زندگی بچ جاتی۔مگر ایسا نہ ہوا کیونکہ ایمرجنسی کی حالت میں اسے وہیں پڑا رہنے دیا گیا۔یہ ہم لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔موبائل جیسی جدید اور کارآمد چیز کا کیا فائدہ اگر اس کو کسی کے فائدہ کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ اگر حادثے کے وقت اس کے لواحقین کا نمبرکہیں سے دستیاب نہ تھا تو ایمرجنسی والی گاڑی کو اسی موبائل سے بجائے اس کے کہ آپ ویڈیو بنائیں فون کر کے بلوا لیں اور بروقت مریضہ کو ہسپتال پہنچا دیں۔پھر ہمارے ہاں دوسری مصیبت یہ ہے کہ کسی زخمی کو اگر سڑک پر سے آپ نے اٹھا کر انسانی ہمدری کے تحت ہسپتال تک پہنچادیاتو وہاں کی ایمرجنسی وارڈ کی پولیس کے ہاتھوں سب سے پہلے آپ کی شامت آئے گی۔ان کو سب سے اول دل میں یہی شک گزرے گا کہ اس نے اس کو خود زخمی کر کے اب ہسپتال تک پہنچایا ہے۔سو آپ کو کئی دنوں تک اس نیک کام کا برا انجام بھگتنا ہوگا۔ جب آپ کی جان چھوٹے تو اس پرکئی دن لگ سکتے ہیں۔ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔یہ فضول کی کارستانیاں اور کاغذی کاروائیاں ترک کرنا ہوں گی۔اس مسئلے کا آسان حل نکالا جا سکتا ہے۔اگر کچھ بڑے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔