اِنسداد پولیو مہم کے سلسلے میں ملک گیر جاری کوششوں میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی اور کوئی ایک بھی صوبہ ایسا نہیں جہاں اِس حکمت عملی کی راہ میں رکاوٹیں حائل نہ ہوں۔ رواں ہفتے پنجاب اور سندھ کے دو کروڑ دس لاکھ (اکیس ملین) سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لئے دو مرحلوں کی پولیو ویکسینیشن مہم کا آغاز ہوا۔ اِس موقع پر محکمہئ صحت کے حکام نے والدین اور سرپرستوں سے درخواست کی کہ بچوں کو پولیو قطرے پلانے اور اِس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے تعاون کریں۔ مردم شماری کے عمل میں سرکاری عملے کی پیشگی مصروفیات کی وجہ سے ویکسی نیشن پروگرام کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں پنجاب کے سترہ اضلاع‘ سندھ اور اسلام آباد کے اکتالیس اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ تیرہ لاکھ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے گئے جبکہ اِس مہم کا دوسرا مرحلہ رمضان المبارک کے دوسرے ہفتے میں شروع ہوگا جس کے تحت بلوچستان کے سترہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے 4 چار اضلاع میں بارہ لاکھ بارہ ہزار سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان دنیا کے اُن دو ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو اب بھی موجود ہے۔ پاکستان کے بعد افغانستان دوسرے نمبر پر ہے۔ اپریل دوہزاربائیس سے اب تک پاکستان میں پولیو کے بیس کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور اگرچہ پاکستانی حکام اِس بات کو یقینی بنانے کے لئے بہت سارے اقدامات کر رہے ہیں کہ تمام بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں‘ پولیو کی گھر گھر مہم کافی فائدہ مند رہی ہے تاہم ابھی بھی ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے ملک کے مختلف حصوں میں ٹیموں کی حفاظت کرنے والے بہت سے ہیلتھ کیئر ورکرز اور پولیس اہلکار اِسی وجہ سے حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ویکسی نیشن ٹیموں کو اپنے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے بھی انکار کرتے ہیں۔ اِن سب اقدامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آخر کار یہ بچے ہیں جنہیں قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ مہلک اور انتہائی متعدی وائرس بچوں کے جسم میں فالج کا باعث بنتا ہے‘ جس سے وہ صحت مند بچپن سے محروم ہوجاتے ہیں اور تمام عمر معذوری و محتاجی کی حالت میں بسر کرتے ہیں۔ چند ہفتے قبل حکام نے عوام میں شعور اُجاگر کرنے کے لئے ایک انوکھی اور تخلیقی مہم شروع کی تھی۔ خیبر پختونخوا اور افغانستان کے راستوں پر آمدورفت کرنے والے ٹرکوں کو دلکش ’ٹرک آرٹ‘ سے مزین کیا گیا۔ اِس کوشش کا مقصد بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کی ترغیب دینا تھی۔ سائنسی معلومات کی کمی اور سازشوں پر پختہ یقین حکومت کو انسداد پولیو ہدف پورا کرنے سے روکے ہوئے ہے لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ حکومت بڑے پیمانے پر ویکسینیشن مہم چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اگر چاہے تو اِسے مکمل بھی کر سکتی ہے جیسا کہ کورونا وبا کی صورتحال میں دیکھا گیا کہ کس طرح ایک انتہائی خطرناک وبائی مرض کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں حکومت نے قابل ستائش کامیابی حاصل کی اور کورونا ویکسی نیشن ڈرائیو (ٹیکہ مہم) منظم انداز میں شروع کی گئی۔ کورونا ہی کی طرز پر ملک سے پولیو کے خاتمے کی مہم بھی چلائی جا سکتی ہے اور اِس سلسلے میں خاطرخواہ منصوبہ بندی بھی ممکن ہے۔ دوسری طرف عوام (ہر خاص و عام) کو یہ بات قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے اور حکومت کے ساتھ پولیو انسداد مہم کی کامیابی کے لئے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ سکولوں‘ کالجوں اور جامعات کو طلبہ کی ٹیکہ کاری کی اہمیت کے بارے میں بتانے کے لئے مہم چلائی جانی چاہئے۔ ہر ضلع میں صحت کے مراکز بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی ترغیب دینے کے لئے آگاہی سیمینار منعقد کریں۔تاکہ پولیو مہم کے حوالے سے جوغلط پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اس کا توڑ کیا جا سکے۔یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور پولیو کے خاتمے کے لئے اہم بھی۔ پولیو کے خلاف جنگ میں قومی عزم کی ضرورت ہے۔ یہ موقع دھمکیوں اور سماجی بدنامی کی پرواہ نہ کرنے والے اور گھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلانے والے بہادروں (مرد و خواتین) کی کاوشوں کو سلام پیش کرنے کا بھی ہے۔ صرف بڑے پیمانے پر انسداد پولیو مہمات‘ ٹیموں کے لئے زیادہ حفاظتی انتظامات کے ذریعے پاکستان میں بڑے پیمانے پر پولیو مہمات کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے جو بالآخر ”پولیو سے پاک پاکستان“ کی صورت حاصل ہونے والا نتیجہ ہوگا۔