دنیا کو جنگ کے بجائے امن کی ضرورت ہے

دنیا کے چاروں اطراف سے کوئی اچھی خبریں نہیں ا ٓرہیں امن کی کوششوں کے بجائے بارود اور اسلحہ کی خریداری کی خبریں آ رہی ہیں۔ بھارت نے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کے فوجی ہتھیاروں کی خریداری کی منظوری دے دی ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ جنگی جنون کا شکار بھارت علاقائی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے، ایک طرف تو بھارتی حکومت دھڑاڈھر اسلحہ خریدنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف اس نام نہاد بڑی جمہوریت میں غربت بڑھ رہی ہے اور اسی زیادہ تر آبادی کو بنیادی سہولیت میسر نہیں، خاص طور پراقلیتوں کو تو یہاں پر دوسرے درجے کی شہری کی حیثیت بھی حاصل نہیں۔اس تمام صورتحال کے باوجود بھارتی حکومت دنیا بھر سے اسلحہ جمع کرنے میں مصروف ہے۔ ادھر شمالی کوریا نے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے،  دوسری جانب امریکہ نے چین کی جانب سے روس اور یوکرین میں جنگ بندی کے واسطے مذاکرات کے مطالبے کو مسترد کر دیاہے۔ ادھر یہ امر بھی تشویش ناک ہے کہ امریکی اور چینی صدور کی ملاقات کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔  یہ ڈیڈ لاک عالمی امن کیلے سم قاتل ہے۔جبکہ دوسری طرف عنقریب چین کے صدر شی روس کا دورہ کر رہے ہیں۔بیجنگ اور کریملن نے گزشتہ روزو بتایا کہ چینی صدر شی جن پنگ اگلے ہفتے روس کا تین روزہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں جہاں وہ روسی رہنما ولادیمیر پوٹن سے دوطرفہ اور عالمی معامات پر تبادلہ خیال کریں گے۔اگلے ہفتے کے اس دورے کا اعلان اس کے ایک روز بعد کیا گیا ے جب چین نے روس اور یوکرین پر زور دیا کہ وہ اپنے تصادم کو ختم کرنے کے لیے امن مذاکرات شروع کریں۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے جمعے کو کہا کہ شی جن پنگ کا دورہ روس دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹیجک رابطوں اور عملی تعاون کو فروغ دے گا اور دو طرفہ تعلقات کے فروغ میں نیا جوش پیدا کر دے گا۔یوکرین کے صدر وولوڈو میر زیلنسکی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ صدر شی سے ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد چین کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے لیے کہا گیا۔یوکرین چین اور روس نے متعدد شعبوں میں اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے اور اب ایسی پارٹبر شپ میں داخل ہو گئے ہیں، جس کے بارے ان کا کہنا ہے کہ یہ لا محدود ہیں۔ روس اور  چین میں قربت جس تیزی سے بڑھی ہے اس نے امریکہ کیلئے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ پہلے تواس کا مقابلہ محض روس سے تھا، اب چین بھی ساتھ مل گیا ہے۔ امریکہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود روس اورامریکہ میں دوریوں کی بجائے قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ کیونکہ ان ممالک کی لیڈر شپ پر یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ امریکہ کسی بھی قیمت پر ان دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بڑھانا چاہتا تاکہ اسے کھلا میدان ملے۔ جبکہ چینی قیادت اس حقیقت سے آگاہ ہے اس لئے تو وہ روس کے ساتھ تعلقات کو تیزی کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں مصروف ہے۔ ادھر امریکہ کو یہ بھی تشویش لاحق ہوگئی ہے کہ چین نے دنیا بھر میں زیادہ ہتھیار فروخت کرنے کی امریکی حیثیت کو چیلنج کیا ہے اوراس نے دنیا میں ہتھیاروں کے فروخت میں اول پوزیشن حاصل کی ہے کیونکہ چین کسی بھی ملک کے مفادات کے بدلے ہتھیار نہیں دیتا بلکہ ہتھیار بھی دیتا ہے اور ساتھ معاشی طور پر بھی اس ملک کو خود کفیل بنانے کی پالیسی پر عمل پیراہے۔