قطرہ خونِ جگر

ہمارے ایک ساتھی نے سٹاف روم میں گپ شپ کے دوران میں بہ ضرورت کسی مریض کو اپنے جسم کا خون دینے کے خلاف بات کی تھی۔ وہ راضی نہ تھے کہ کسی کو خون دیا جائے۔ وہ اس عمل کو درست نہیں جانتے تھے۔میں تو خیر وہاں کیا بولتا بھلا نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔پھر وہ ایسے رعب و دبدبے کی شخصیت تھے کہ اس وقت کوئی بھی ان کی مخالفت کے جواب میں بولنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔پھر ہم تو ٹھہرے انتہائی جونیئر کہ اب بولیں بھی تو ایک سینئر ترین افسر کے خلاف بات کریں۔ کسی نے کچھ کہا تو انھوں نے اپنے سے بنے بنائے دلائل کے ذریعے ان کو چپ کروا دیا۔ لگ بھگ بیس سا ل پیشتر کا واقعہ ہے۔جو لوگ نیک کا م کی مخالفت کریں اور پھر وہ پڑھے لکھے ہوں۔اس پر یہ کہ وہ پڑھے لکھوں کو خود پڑھاتے ہوں تو ان کے پاس کتابوں کے حوالے اور خود سے گڑھے ہوئے جوابات تیار ان کی نوکِ زباں ہو تے ہیں۔اب تو خیر اس حوالے سے عوامی طور پر کافی آگاہی حاصل ہو چکی ہے۔مگر اس کے باوجود عام پبلک خون کا عطیہ دینے کی طرف آسانی سے نہیں آتی۔اس وقت تک ان کا دل اس حق میں نرم نہیں ہوتا جب تک خدا نہ کرے ان کا کوئی پیاراہسپتال میں  بیماری کے بستر سے لگا صحت کے انتظارمیں ترس نہ رہا ہو۔انھوں نے سٹاف روم میں اس موضوع پر اچھی خاصی تقریر کر ڈالی ۔مگر کتابی باتیں بعض اوقات پھیکی او ربے مزہ ہوتی ہیں اور خالی خولی ہوتی ہیں۔ پھر اس کے سامنے عملی اقدامات اور اہمیت رکھتے ہیں۔عمل کا اپنا ایک رعب و دبدبہ ایک ٹہکا ہے جس کے سامنے کوئی رستمِ زماں پر بھی نہیں مار سکتا۔مگر کچھ روز ہی گزرے تھے کہ سٹاف روم میں یہ اطلاع آئی کہ انھیں سینئر ترین شخصیت کی بچی کو ہسپتال میں خون کی اشد ضرورت ہے۔جو ظاہر ہے کہ کالج میں سٹوڈنٹس ہی کے ذریعے دو چار خون کی بوتلوں کے عوض پوری ہوگئی۔پھر اس کے بعد جب وہ دوبارہ دفتر میں ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے بیٹھے تھے تو خون کا عطیہ دینے کے حق میں مدلل انداز اور ایک خطیبانہ شان سے اپنے گلہائے علم و فراست سے محفل کو پر رونق اور خوشبو داربنا رہے تھے۔پھر وہ ریٹائرڈ ہونے کے قریب تھے۔ان کی بچی کو خون کی چار بوتلیں چڑھائی گئی تھیں اور مریضہ موت کے منہ سے واپس لوٹی تھی۔ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ایک کی اولاد کا دکھ دوسرا صاحبِ اولاد سمجھ سکتا ہے اور اس کے حل کے لئے کوشش بھی کرتا ہے۔مگر فراز نے کہا ہے ”کس کو بتلائیں کہ آشوبِ محبت کیا ہے۔جب پہ گزری ہو وہی حال ہمارا جانے“۔جس پہ گزرتی ہے وہی جانتا ہے یا اس کا دکھ قدرت کو معلوم ہوتا ہے۔مگر شکر ہے کہ اب تو خون کی بہت سی تنظیمیں اوپن ہیں اور مریض کے لئے خون کا بندوبست ہو جاتا ہے۔اگر کوئی نہ دے تو دوسرا بندہ ازراہِ ہمدردی دے دیتا ہے۔مگر ایک زمانہ وہ تھاجب خون کے عطیہ کی اہمیت سے کم لوگ واقف تھے۔میں نے ابھی دو ایک روز پہلے 142ویں بار اس نیک کام کی انجام دہی کی ہے۔ منع کرنے والے کہتے ہیں اور خون نہ  دو۔ مگر جب تلک ہمت ہے اور جسم اجازت دیتا ہے خون دینے سے انکار کیوں کیا جائے۔ کیونکہ انسانیت دکھی ہے۔اس کے دکھ کبھی دور نہ ہوئے اور آئندہ بھی کبھی دور نہ ہوں گے۔اس کا واحد حل یہی ہے کہ دکھ درد تکالیف رنج و کلفت تو انسان جب تک سانس لے رہا ہے اس کے ساتھ منسلک ہیں۔سو ان کا سو فیصد علاج تو نہیں۔ لیکن جب تک کسی کو خون کی ضرورت ہوگی اس کو آسانی کے ساتھ اگر خون مل جایا کرے تو یہ بھی ہمارے اخلاق و کردار کے لحاظ سے بہت بڑی ترقی ہے اسی طرح تھیلی سیمیا کے مریض کو جب تک اس کو دیا ہوا خون کام کرتا ہے خواہ وہ پندرہ دن کے لئے کام کرے یا دو تین ماہ کے لئے بچہ چست  رہ کر کھیلتاکھالتاہے۔لیکن جب اس کو چڑھائے گئے خون کی گردش ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد اس کو دوبارہ خون کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔یہ معصوم بچے یہ پھول اور کلیاں ہمارے ہی ماحول کا حصہ ہیں۔یہ ہم ہی تو ہیں۔کسی کے گھر میں اگر کوئی تھیلی سیمیا کا مریض بچہ موجود نہیں تو اس کامطلب یہ نہیں کہ کسی کے ساتھ یہ حادثہ پیش نہیں آ سکتا۔اس حوالے سے بھی ازحد احتیاط کی ضرورت ہے کہ والدین کے خون میں اگر تھیلیسمیا کے جراثیم موجود ہیں تو یہ مرض بچوں میں زیادہ شدت سے سامنے آتا ہے۔