کورونا وبا: نئی لہر 

نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر (این سی او سی) نے ملک بھر میں کورونا وبا کے بڑھتے ہوئے کیسز کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی فاصلہ رکھنے اور کورونا وبا سے بچنے کے لئے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ یہ ہدایات 30 اپریل 2023ء تک کے لئے جاری کی گئی ہیں‘ جس کا مطلب ہے کہ اعدادوشمار کے مطابق ’کورونا وبا‘ ایک مرتبہ پھر پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بھیڑ بھاڑ والے جگہوں و تقاریب میں ماسک پہن شرکت کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے ملک میں کورونا وبا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور وبا بڑھنے کی اِس مثبت شرح (15 فیصد) میں ہر 100میں سے پندرہ افراد کورونا سے متاثر پائے گئے ہیں۔ کیسز میں اضافے کے رجحان کے باوجود گزشتہ ایک ماہ میں وائرس کی وجہ سے صرف چار اموات ہوئی ہیں اور ’این آئی ایچ‘ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ملک میں اگرچہ ماضی کی طرح کورونا وبا پھیلنے کا کوئی زیادہ بڑا خطرہ نہیں لیکن دوسری طرف ’این سی او سی‘ نے پابندیوں پر مبنی ہدایت نامہ جاری کر دیا ہے جو حیران کن ہے کیونکہ دونوں اہم حکومتی اداروں کے مؤقف میں فرق پایا جاتا ہے۔ کورونا وبا کا ظہور دسمبر 2019ء کے اواخر میں ہوا جبکہ پاکستان میں فروری دوہزاربیس سے اِس سے متاثرہ مریض پائے جاتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ عرصہ تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود ’کورونا وبا‘ سے متعلق ہدایات پر عمل نہیں کیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا وبا کا باعث بننے والا جرثومہ (وائرس) اور اِس کی اقسام و نئی ذیلی قسمیں اب بھی سینکڑوں افراد کو متاثر کئے ہوئے ہیں اور صحت عامہ کے حکام کو اِسی وجہ سے ملک گیر ہدایات جاری کرنا پڑی ہیں جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ کورونا وائرس ابھی ختم نہیں ہوا اور نہ ہی اِس کے پھیلنے کا خطرہ ٹلا ہے۔ کورونا وبا نے سال دوہزاراُنیس سے بڑے پیمانے پر پھیلنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی ایک ملک کے حفاظتی انتظامات پر عمل درآمد کرنے یا نہ کرنے سے اِس کے پھیلنے کو روکا نہیں جا سکے گا۔ جس طرح عالمی فیصلہ سازوں میں اِس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے عالمی متفقہ لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے بالکل اِسی طرح کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے بھی عالمی شراکت داری چاہئے۔ کورونا پھیلنے کی بنیادی وجہ عالمی تجارت و سفر ہے جس کی وجہ سے اِس مرض کی نئی اقسام پیدا ہو رہی ہیں۔ انفیکشن کے کلسٹر دنیا کے کسی بھی کونے میں ابھر سکتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہم کبھی بھی کسی نئی بڑی وبا یا لہر سے مکمل طور پر محفوظ نہیں لہٰذا کورونا کے خلاف لڑائی عالمی تعاون کی متقاضی ہے۔ اِس وائرس کو آنے والے سالوں کے لئے مسلسل نگرانی‘ تیاری اور جوابی اقدامات کی ضرورت ہوگی‘ جس طرح ڈینگی اور ملیریا سے نمٹنے کے لئے عالمی حکمت عملیاں وضع کی گئیں اور یہ بڑی حد تک کامیاب بھی ثابت ہوئی ہیں۔ اس تناظر میں جبکہ دنیا بھر میں صحت عامہ کے حکام کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ نئے اور زیادہ مؤثر جوابی اقدامات کریں۔ ماسکنگ کی سفارشات یا مینڈیٹ (ایس او پیز) جاری کرنا انتہائی ہے‘ جیسا کہ اِس صورتحال کا مطالبہ ہے اور نئی ویکسین اور بوسٹر سمیت زیادہ مؤثر علاج بھی تلاش کیا جانا چاہئے۔ مزید برآں‘ کورونا وبا کی نئی لہر کو پھیلنے سے روکنے کے لئے عوام و خواص کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔ وقت ہے کہ ماضی کی طرح آج بھی کورونا وائرس (وبا) کو سنجیدگی سے لیا جائے اور صحت عامہ کے حکام کے مشوروں کو بغور سنتے ہوئے اُن پر عمل درآمد کیا جائے۔ فی الوقت ملک کے آدھے سے بھی کم یعنی تقریبا تیرہ کروڑ بیس لاکھ (132ملین) افراد کو مکمل طور پر کورونا ویکسین دی جا چکی ہے اور اِس سے بھی کم یعنی پانچ کروڑ افراد کو بوسٹر ڈوز دی گئی ہے۔ واضح طور پر ویکسین اور ’بوسٹر ڈوز‘ کے استعمال کو بہتر بنانے کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘ جس میں کووڈ اور ویکسین کے بارے میں غلط اطلاعات (جعلی خبروں) کا مقابلہ کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے لئے ایک عالمی کوشش کی ضرورت ہوگی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترقی یافتہ دنیا ویکسین‘ ماسک اور دیگر حفاظتی آلات کی وافر مقدار میں دستیابی یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے‘ جس کی وجہ سے گلوبل ساؤتھ کے ممالک (بشمول پاکستان) اپنے لوگوں کو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ کورونا سے بچاؤ کی انتہائی ضروری ویکسین اور بوسٹر ڈوز کی تقسیم کے بغیر کورونا کو شکست نہیں دی جا سکے گی۔ سرمایہ دار ممالک کے فیصلہ سازوں کو دنیا کے غریب خطوں میں پائی جانے والی عدم مساوات کی طویل فہرست کم کرنے پر بھی غور کرنا چاہئے۔